عام مقالات

رمضان اور صدقہ فطر

ماہ مبارک رمضان کے خاتمے اور عید الفطر کا چاند نظر آجانے کے بعد مسلمانوں پر صدقہ فطر فرض ہے ، فطر کا معنی ہے کسی چیز کو کھولنا اور روزہ افطار کرنا ۔ چونکہ یہ صدقہ رمضان کا روزہ افطار کرنے کے بعد ادا کیا جاتا ہے اس لئے اسے صدقہ فطر کہتے ہیں۔

حکم:

متعدد صریح وصحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ فطر واجب ہے،حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا سے روایت ہےکہ” فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَالصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ” .

صحيح البخاري:1432 الزكاة، صحيح مسلم:984 الزكاة.

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر فرض قرار دیا ہے ایک صاع جو یا کھجور کا، جو ہر آزاد ،غلام ، مرد وعورت اور چھوٹے بڑے مسلمان پر واجب ہے ،اور حکم دیا کہ وہ لوگوں کے نماز عید کے لئے نکلنے سے قبل ادا کردیا جائے۔

جمہور علماءکی رائے یہی ہے، بلکہ امام ابن المنذر نے اس پرعلماء کا اجماع نقل کیا ہے۔ الاجماع ص:49۔

وجوب کی حکمت ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّيامِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلاَةِ فَهِىَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلاَةِ فَهِىَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ”. سنن ابوداود: 1609 الزكاة، سنن ابن ماجة: 1827 الصدقات.

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا تاکہ روزے کے لئے لغو اور بیہودہ باتوں اور کاموں سے پاکیزگی ہو اور مسکینوں کا کھانا ہو ، لہذا جس نے نماز عید سے پہلے ادا کردیا تو اس کی زکاۃ مقبول ہو ئی اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو یہ عام صدقات میں شمار ہوگا۔

اس حدیث میں صدقہ فطر کی فرضیت کی دو بڑی اہم حکمتیں بیان ہوئی ہیں:

1—روزہ اور روزہ دار کی تطہیر ۔

کسے باشد1 کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے ایسا روزہ رکھا ہے جیسا کہ اس سے مطلوب ہے ، بلکہ بسا اوقات ایک مسلمان کھانے پینے کا روزہ تو رکھلیتا ہے لیکن نظر وزبان کا روزا نہیں رکھ پاتا، وہ شرعی روزہ تو رکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن روزے کے واجبی و مسنون آداب میں کوتاہی کر بیٹھتاہے، لہذا اس کی تلافی کے لئے اللہ تعالی نے رمضان المبارک کے انتہا پرصدقہ فطر کو واجب قرار دیا ہے۔

2—مسکینوں کا کھانا۔

عید تمام مسلمانوں کی خوشی کا دن ہے، لیکن کچھ خاص لوگ اپنی مادی مجبوری کی وجہ سے اس عام ملی تہوار میں شریک نہیں ہو سکتے، لہذااصحاب استطاعت پر یہ صدقہ فرض کیا گیاتاکہ اس صدقہ کے ذریعے محتاج لوگوں سے تعاون کرکے انہیں اس لائق بنا دیا جائے کہ وہ اس خوشی کے موقع پر مسلمانوں کے ساتھ عید کی مسرتوں میں شریک ہوجائیں۔

3—نیزصدقہ فطر کی ایک حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ صدقہ اللہ تعالی کی اس عظیم نعمت کا شکریہ ہے جو اس نے رمضان کا روزہ رکھنے ، اس میں قیام کرنے اور دیگر عبادات بجا لانے کی توفیق بخشی کیونکہ یہ سبکچھ بغیر توفیق الہی کے ممکن نہیں تھا۔

ایں سعادت بزور بازو نیست — تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

وجوب کی شرطیں۔

صدقہ فطر کے وجوب کی درج ذیل شرطیں علماء نے ذکر کی ہیں۔

1—الاسلام ۔

صدقہ فطر خاص مسلمانوں پر فرض ہے ،چنانچہ کافر یا کافر کی طرف سے فطرانہ ادا نہ کیا جائے گا، لہذا اگر کسی کی زیر کفالت کوئی کافر ہے یا اس کا غلام کافر ہے تو اس پر زکاۃ فطر نہیں ہے۔

2—آزادی۔

چونکہ غلام نہ اپنا مالک ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے مال کا ، لہذا اس پر بھی زکاۃ فطر کی ادائگی واجب نہیں ہے،البتہ اس کے مالک پر اس کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہوگا۔

3—استطاعت۔

استطاعت سے مراد یہ ہے اس کے پاس صدقہ فطر ادا کرنے کے لئے مال بھی موجود ہو،یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ وہ صاحب نصاب بھی ہو، بلکہ جس مسلمان کے پاس عید کے دن کے خرچ سے زیادہ مال موجود ہو گا اس پر زکاۃ فطر واجب ہوگی ۔

صدقہ فطر کس پر واجب ہے؟

اوپر کی سطور سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر ہراس آزاد مسلمان پر واجب جو عید کے دن اپنے اور اہل وعیال کے خرچ سے زیادہ کا مالک ہو ، اس پر حسب استطاعت اپنی طرف سے بھی واجب ہے اور اپنے زیر کفالت ہر چھوٹے بڑے ،آزاد غلام مسلمان کی طرف سے بھی واجب ہے۔

ابتدا میں حضرت عبد اللہ بن عمر کی حدیث گزر چکی ہےجو اس بارے میں بالکل صریح ہے،نیز ایک اور حدیث میں ہے:

أمر رسول الله صلى الله عليه و سلم بصدقة الفطر عن الصغير والكبير والحر والعبد ممن تمونون۔ (سنن الدارقطنی2/141، سنن البیہقی4/161، برایت ابن عمر)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چھوٹے بڑے آزاد وغلام جو زیر کفالت ہوں ان کی طرف سے صدقہ فطر نکالنے کا حکم دیا۔

وجوب کا وقت۔

صدقہ فطر کے وجوب کا وقت عید الفطر کے چاند کا دکھائی دینا ہے ، لہذا ہر وہ مسلمان جو شوال کے ہلال نو کے ظہور کے وقت بقید حیاۃ ہے، اس کی طرف سے زکاۃ فطر نکالنا واجب ہوگا، زکاۃ فطر کے وجوب کیلئے روزہ رکھنا شرط نہیں ہے، چنانچہ اگر کسی کے یہا ں ایک بچے کی پیدائش رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے سے چند لمحے پہلے ہو رہی ہے تو اس کی طرف سے صدقہ فطر دیا جائے گا ، اسی طرح اگر کسی کا انتقال عید کا چاند دکھائی دینے سے چند لمحہ پہلے ہوتا ہے تو اس کی طرف سے صدقہ فطر نکالنا واجب نہ ہوگا، یہیں سے معلوم ہوا کہ وہ بچہ جو ماں کے پیٹ میں ہے اس کی طرف سے صدقہ فطر مشروع نہیں ہے ، چنانچہ امام ابن المنذر لکھتے ہیں : دنیائےاسلام کے کسی عالم کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں ہے کہ اس نے جنین {جو بچہ میں کے ہیٹ میں ہے} کی طرف سے صدقہ فطر کو واجب کیا ہو،ہم تک اس سلسلے میں جن علماء کا قول پہنچا ہے ان میں حضرات عطاء امام مالک امام ابوثور اور اصحاب رائے ہیں، البتہ امام احمد بن حنبل مستحب قرار دیتے ہیں لیکن واجب نہیں کہتے ، جو کچھ ہم نے کہا اس کے خلاف حضرت عثمان جو نقل کیا جاتا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ { الاشراف لابن المنذر3/72،المغنی4/316} ۔

صدقہ فطر کس چیز سے دیا جائے؟

حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما میں گزر چکا ہے کہ اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃفطر کھجوراور جو سے ایک صاع فرض قرار دیا ہے۔

صحیح بخاری وصحیح مسلم۔

اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ: أمرنا رسول الله صلى الله عليه و سلم أن نؤدي زكاة رمضان صاعا من طعام عن الصغير و الكبير و الحر و المملوك من أدى سلتا قبل منه و أحسبه قال : و من أدى دقيقا قبل منه و من أدى سويقا قبل منه. صحيح ابن خزيمة 4/88 ، مسند البزار( المجمع3/80،81.

رسول اللہنے ہمیں حکم دیا کہ ہم رمضان کی زکاۃ کھانے کی چیز سے ہر چھوٹے بڑے اور آزاد وغلام کی طرف سے ایک صاع نکالیں ،تو جس نے جو دیا[یا وہ جو جس کا چھلکا اتار لیا گیا ہو] تو اس سے قبول کیا جائےگا ، اور میرا گمان ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایاکہ جس آٹا دیا اس سے قبول کیا جائے گا اور جس نے ستو دیا اس سے قبول کیا جائے گا۔

نیز حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم لوگ صدقہ فطر کھانے کی چیزوں سے نکالا کرتے تھے اور ہمارا کھانا جو ،منقہ ،پنیر اور کھجور جیسی چیزیں تھیں۔ صحیح بخاری:1510، صحیح مسلم:985۔

ان تینوں حدیثوں سے معلوم ہواکہ:

1—صدقہ فطر اشیائے خوردنی یعنی کھانے کی چیزوں سے فرض ہے۔

2—بعض وہ چیزیں جو عہد نبوی میں بطور غذا کے مستعمل تھیں ان کا ذکر اس حدیث میں ہے لہذا انہیں چیزوں پر ہر اس حلال چیز کو قیاس کیا جائے گا جو کسی معاشرے میں بطور بنیادی غذا کے استعمال ہوتی ہیں ۔

3– نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم صدقہ فطر غلہ اور کھانے کی چیزوں سے ہی ادا کرتے تھے، کسی نے کبھی بھی قیمت یا نقدی کی طرف رجوع نہیں کیا، لہذا اصل یہ ہے کہ صدقہ فطر میں غلہ ہی متعین ہے نقد کی صورت میں دینا جائز نہ ہوگا ، جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔

نیز ایک چیز یہ بھی قابل غور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کی علت یہ بیان فرمائی ہے کہ لغو وبیہودہ باتوں اور کاموں سے روزہ دار کے روزوں کی صفائی اور مسکینوں کیلئے کھانا ہے ، اور ظاہر بات ہے کہ یہ دونوں امر اسی وقت متحقق ہو سکتے ہیں جب صدقہ فطر غلہ کی شکل میں دیا جائے، کیونکہ جن انسانی کوتاہیوں اور غلطیوں کا کفارہ شریعت میں مسکینوں کو کھانا کھلانے کی شکل میں مقرر ہے جیسے قسم کا کفارہ ، ظہار کا کفارہ ، رمضان میں جماع کا کفارہ اور حج میں فدیہ وغیرہ ان میں کھانا کھلانا ہی متعین ہے، وہاں نقد کی شکل میں دینا جائز نہ ہوگا، اسی طرح حدیث میں وارد لفظ “مسکینوں کا کھانا” سے بھی یہ مفہوم بالکل واضح ہے، کیونکہ اگر فطرانہ نقد کی صورت میں ادا کیا گیا تو اسے نہ مسکین کا کھانا کہا جائے گا اور نہ ہی عمومی طور لوگ اسے کھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں ،بلکہ بسا اوقات غیر ضروری اشیاء میں حتی کہ بسا اوقات ناجائز اور مکراہ کاموں میں صرف کرتے ہیں ، جیسا کہ یہ امر مشاہدے میں ہے،لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ فطرانہ صرف غلہ اور انہیں چیزوں دیا جائے جو کسی معاشرے میں لوگوں کی بنیادی غذا ہوں اور نقد کی طرف اسی صورت میں آیا جائے جب غلہ ادا کرنا مشکل تریں کام ہو جائے، جیسا کہ شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت کی ہے ۔ المرعاۃ6/203۔

یہ امر بھی واضح رہنا چاہئے کہ آج لوگوں کے یہاں نقد دینے کا ایسا تصور قائم ہو چکا ہے کہ فطرانہ میں غلہ دینا ہی اصل سمجھتے ہیں ، حالانکہ اگر تھوڑی دیر کے لئے غلہ کا جواز تسلیم کرلیا جائے تو بہتر اور سنت کا طریقہ وہی ہوگا جو عہد نبوی اور عصر صحابہ سے ثابت ہے اور غلہ کا دینا بعض حالات میں صرف جائز ہوگا ، واللہ اعلم۔

کس مقدار میں دی جائے؟

زکاۃ فطر کی مقدار ایک صاع نبوی ہے، جیسا کی پچھلی سطور میں متعدد حدیثیں اس معنی کی گزر چکی ہیں ، نیز حضرت ثعلبہ بن صعیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : قَامَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- خَطِيبًا فَأَمَرَ بِصَدَقَةِ الْفِطْرِ صَاعِ تَمْرٍ أَوْ صَاعِ شَعِيرٍ عَنْ كُلِّ رَأْسٍ عَنِ الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ وَالْحُرِّ وَالْعَبْدِ. صحيح ابن خزيم’:2410،سنن ابوداود:1620.

ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور حکم دیا کہ ہر ایک چھوٹے بڑے اور آزاد وغلام کی طرف سے ایک صاع جو یا کھجور بطور صدقہ فطر ادا کیا جائے۔

لہذا اصل یہ ہے کہ فطرانہ ہر چیز سے ایک صاع ادا کیا جائے گا ، جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے ، البتہ بعض حدیثوں کے پیش نظر جن کی صحت اہل علم کے نزدیک مختلف فیہ ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وقت ضرورت قیمتی ونادر اشیا ءسے اگر آدھا صاع بھی ادا کیا گیا تو ادا ہو جائے گا، خاصکر تنگی اور مشکل حالات کے پیش نظر ۔ شیخ الحدیث عبیداللہ مبارکپوری اور علامہ البانی رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے۔ دیکھئے المرعاۃ 6/199، نیز الموسوعۃ الفقہیۃ 3/163،164 ۔

دو ضروری باتوں ہر تنبیہ۔

1– صاع اور مد وزن کے پیمانے نہیں بلکہ ماپ کے پیمانے ہیں ، البتہ موجودہ وزن کے لحاظ سے ایک صاع کی مقدار کتنی ہے ،اس سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے ، بعض اہل علم دو کیلو چالیس گرام[ابن عثیمین]، بعض دو کیلو سوگرام[ عبد الستار حماد] اور اکثر اہل علم پونے تین سیر یعنی تقریبا ڈھائی کیلو بتلاتے ہیں ، لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ فطرانہ دیتے وقت صاع کا وزن ڈھائی کیلو مانا جائے۔

2– یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ جگہ کے لحاظ سے ماپ وتول کے پیمانوںکی مقدار میں اختلاف ہوتا ہے ، بعینہ اسی طرح صاع کی مقدار میں بھی اختلاف ہے، چنانچہ حجازی صاع عراقی صاع کے مقابلہ میں قدرے چھوٹا ہے ،جس کی وجہ سے محدثین اور احناف میں یہ اختلاف بھی ہوا کہ فطرانہ اور دیگر کفارات میں کس صاع کا اعتبار کیا جائے، احناف نے صاع عراقی کو بنیاد بنایا اور محدثین نے صاع حجازی کواصل مانا ،کیونکہ نبیصلی اللہ علیہ وسلمحجاز میں تھے اور آپ کے زمانے میں مدینہ منورہ میں حجازی صاع ہی استعمال میں تھا،لہذا صحیح مسلک یہی ہے کہ فطرانہ وغیرہ کی ادائگی میں حجازی صاع کا اعتبار کیا جائے ، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے زکاۃ فطر دیتے تھے ، نیز آپصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ” الوزن وزن أهل مكة والمكيال مكيال أهل المدينة ” سنن ابوداود:2340۔

وزن کے پیمانے میں اہل مکہ کے وزن کا اعتبار ہے اور ماپ کے پیمانے میں اہل مدینہ کے پیمانے کا اعتبارہے۔

کب نکالا جائے؟

صدقہ فطر عید کا چاند نظر آنے کے بعد واجب ہوتا ہے اور اس کا وقت عید کی نماز تک رہتا ہے، البتہ صدقہ فطر کا بہتر وقت عید کی صبح نماز عید کے لئے جانے سےقبل ہے، کیونکہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا یہی وقت متعین فرمایا ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فطرانہ سے متعلق حکم فرمایا کہ اسے لوگوں کے نماز عید کی طرف جانے سے پہلے پہلے ادا کردیا جائے۔ صحیح بخاری:1509،صحیح مسلم:986۔

ہاں اگر کوئی مصلحت پیش نظر ہو تو دو ایک دن پہلے بھی دیا جاسکتا ہے ،بلکہ بسا اوقات کچھ پہلے دینا مستحسن ہوگا خاصکر جہاں لوگ اپنا فطرانہ ایک جگہ جمع کرکے غریبوں میں تقسیم کرتے ہوں، راوی حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ کا عمل یہی تھا، چنانچہ مذکورہ حدیث کے آخر میں ہے ، نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر اسے عید سے ایک دو دن پہلے ادا کردیا کرتے تھے، اور موطا ابن مالک میں ہے کہ ابن عمر اپنا اور اپنے اہل خانہ کا فطرانہ عیدسے دوایک دن قبل صدقہ فطر وصول کرنے والوں کو دے دیا کرتے تھے۔

البتہ نماز عید سے موخر کرنا جائز نہ ہوگا ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ۰۰۰لہذا جو شخص نماز سے پہلے پہلے ادا کردیتا ہے تو اس کی قبول کرلی گئی اور جو شخص نماز کے بعد ادا کرتا تو اس کا شمار عام صدقات میں ہے ۔ سنن ابوداود:1609،سنن ابن ماجہ:1827۔

البتہ زکاۃ فطر کو شروع رمضان یا آدھے رمضان کے بعدہی دے دینا یا بلا کسی عذر شرعی کے عید کی نماز سے موخر کرنا جائز نہ ہونا۔

کس کو دیا جائے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو مسکینوں کا کھانا بتلایا ہے ،لہذا راجح اور صحیح قول یہی ہے کہ صدقہ فطر کا حکم مصرف میں عام زکاۃ کا نہیں ہے ،بلکہ یہ صرف فقیر ومسکین کا حق ہے اور انہیں ہی دینے سے ادا ہوگا، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ فقیر ومسکین مسلمان ہوں غیر مسلم فقیر ومسکین کو دینا جائز نہ ہوگا ، کیونکہ نبیصلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:انہیں عید کے دن سوال کرنے سے بےنیاز کردو۔ سنن البیہقی و سنن الدارقطنی۔

اس کا مفہوم ہے کہ فطرانہ کا تعلق مسلمانوں سے ہے ، نیز زکاۃ سے متعلق امام ابن المنذر لکھتے ہیں : اہل علم کا اجماع ہے کہ زکاۃ غیر مسلموں کو نہیں دی جائے گی۔ الاجماع:

کس جگہ دی جائے۔

اس سلسلے میں اصل چیز یہ ہے کہ ہر شخص جہاں موجود ہے اپنی زکاۃ فطر اسی جگہ اداکرے ، کسی اور جگہ نہ بھیجے، کیونکہ قریب کے محتاج زیادہ حقدار ہوتے ہیں، لیکن جس جگہ موجود ہے وہاں صاحب حاجت نہیں ہیں یا اور کسی جگہ منتقل کرنے میں کوئی دوسری مصلحت ہے یا سخت ضرورت ہے تو اپنی جائے اقامت سے منتقل بھی کیا جا سکتا ہے۔

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى