عام مقالات

عید محبت اور کافروں کی دیگر عیدوں سے متعلق

اہل علم کے فتوے :

(1) علمی بحثوں اور فتاوی سے متعلق سعودیہ عربیہ کی دائمی کمیٹی کا عید محبت سے متعلق فتوی :

فتوی نمبر : ٢١٢٠٣ تاریخ : ١٤٢٠١١٢٣ھ

الحمد للہ وحدہ والصلاة و السلام علی من لا نبی بعدہ …… وبعد !

علمی بحثوں اور فتووں سے متعلقہ دائمی کمیٹی اس خطاب پر مطلع ہوئی جو عبد اللہ آل ربیعہ کی طرف مفتی اعظم کو بھیجا گیا تھا ، جسے مقتدر علماء کی سکریڑیٹ نے بتاریخ :١٤٢٠١١٣ ھ برقم : ٥٣٢٤ ، دائمی کمیٹی کی طرف تحویل کردیا تھا ۔

سائل کا سوال یہ تھا کہ میلادی سال کے اعتبار سے ہر سال فروری ماہ کی ١٤ تاریخ کو کچھ لوگ عید محبت مناتے ہیں ، جس میں سرخ گلاب کے پھولوں کے ہدیہ کا تبادلہ کرتے ہیں سرخ ہی رنگ کا لباس پہنتے ہیں اور ایک دوسرے کو اس عید کی آمد پر مبارکباد پیش کرتے ہیں ، اسی مناسبت سے کچھ دوکاندار سرخ رنگ کی مٹھائیاں تیار کرتے اوراس پر انسانی دل کا نقشہ بناتے ہیں ، نیز بعض تجارتی مراکز خصوصی طور پر اس مناسبت کیلئے تیار کی جانے والی چیزوں کی تشہیر کرتے ہیں ،

اب سوال یہ ہیکہ درج ذیل امور سے متعلق آپ حضرات کی رائے کیا ہے ؟

اولا : اس دن کا{ بطورعید } اہتمام کرنا ۔

ثانیا : اس دن کی مناسبت سے دکانوں سے سامان خریدنا ۔

ثالثا : وہ دکاندار جو خود اس دن کا کوئی اہتمام تو نہیں کرتے البتہ اس دن کا اہتمام کرنے والوں کے ہاتھ بعض ان اشیاء کو فروخت کرتے ہیں جو اسی مناسبت سے بطور ہدیہ لی دی جاتی ہیں ۔

جزاکم اللہ خیرا

جواب :

سوال پر غور کرنے کے بعد کمیٹی کا جواب تھاکہ کتاب وسنت کے صریح دلائل اس بات پر دلالت کرتے اور اس پر امت کے گزرے ہوئے اہل علم کا اجماع رہا ہے کہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں یعنی عید الفطر اور عید الأضحی ، انکے علاوہ دیگر عیدیں خواہ انکا تعلق افراد سے ہو یا جماعت سے کسی حادثہ سے ہو یا کسی اور مناسبت سے ،سب بدعتی اور غیر شرعی عیدیں ہیں ، مسلمانوں کیلئے ان عیدوں کامنانا یا باقی رکھنا جائز نہیں ہے ، نہ ہی انکی آمد پر خوش ہونا جائز ہے اور نہ ہی ان سے متعلقہ کسی چیز پر تعاون جائز ہے کیونکہ ایسا کرنا گویا اللہ تعالی کی حدوں کو پار کرنا ہے :

” وَمَن یَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہ ”  { الطلاق : ١ }

اور جس نے اللہ تعالی کی حدود کو پارکیا اس نے اپنے اوپر ظلم کیا ۔

اور اگر ان عیدوں پر یہ اضافہ ہوکہ یہ کافروں کی عیدیں ہیں تو یہ گناہ پر گناہ ہے کیونکہ اس میں کافروں کے ساتھ مشابہت اور انکے ساتھ ایک قسم کی موالات پائی جاتی ہے جبکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنی کتاب عزیز میں مسلمانوں کو کافروں کی مشابہت و موالات سے منع فرمایا ہے ، نیز نبی کریم ۖسے ثابت ہیکہ آپ نے فرمایا: ” من تشبہ بقوم فھو منھم ”

جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو اسکا شمار اسی قوم میں ہوگا ۔

” عید محبت’ بھی مذکورہ قسم سے ہی ہے کیونکہ وہ بت پرست عیسائیوںکی عیدوںمیں سے ہے ، اسلئے کسی ایسے مسلمان کیلئے جو اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتاہے یہ جائز نہیں ہے کہ اس عید کو منائے یا اس پر خاموشی اختیار کرے یا اس کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرے ، بلکہ اس پر تو یہ واجب ہیکہ اللہ اور اسکے رسول کی پیروی ، اللہ تعالی کے غضب اور اسکی سزا کے اسباب سے دور رہتے ہوئے اسے چھوڑدے اور اس سے اجتناب کرے ۔

اسی طرح مسلمان پر یہ بھی حرام ہے کہ اس عید اور اسی طرح کی دیگر حرام عیدوں کے موقعہ پر کسی قسم کا تعاون کرے ، خواہ کھانے پینے میں ہو ، یا خرید وفروخت اور صنعت ہو ، ہدیہ کا تبادلہ ہو یا کتابت اور اعلان وغیرہ کے ذریعہ ہو ، کیونکہ یہ تمام کام گناہ ، زیادتی اور اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی پر تعاون کرنے میں داخل ہیں ، اور اللہ تعالی فرماتا ہے :

وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّہَ إنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَاب { المائدة : ٢ }

نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ ، ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو ، اللہ تعالی سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ اللہ تعالی سخت عذاب والا ہے ۔

مسلمان پر واجب ہے کہ ہر حال میں کتاب و سنت کو لازم پکڑے خاصکر فتنوں اور فساد کے عام ہوجانے کے وقت ، نیز اسے چاہئے کہ جن لوگوں پر اللہ تعالی کا غضب نازل ہوچکا یا جو لوگ فاسق اور راہ حق سے بھٹک چکے ہیں انکی گمراہیوں میں پڑنے سے بچے ،کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالی کی کوئی تعظیم کرتے ہیں اور نہ اسلام پر کوئی توجہ دیتے ہیں ، نیز مسلمان کو چاہئے کہ وہ طلب ہدایت اور اس پر ثابت قدمی کیلئے اللہ تعالی سے دعا کرتا رہے ،کیونکہ اللہ تعالی کے علاوہ ہدایت دینے والا اور ثابت قدم رکھنے والا کوئی نہیں ہے ۔

وباللہ التوفیق و صلی اللہ علی نبینا محمد و آلہ وصحبہ و سلم

دائمی کمیٹی برائے علمی بحث و فتوی

صدر :

{الشیخ } عبدالعزیز بن عبد اللہ آل شیخ

ممبران :

{الشیخ } عبد اللہ عبد الرحمان الغدیان

{ الشیخ } صالح بن فوزان الفوزان

{الشیخ } بکر بن عبد اللہ ابو زید

***********

(2) عیسائیوںکی عیدوں میں شریک ہونے کے عدم جواز سے متعلق علمی بحثوں اور فتوی کی دائمی کمیٹی کا ایک اور فتوی : ٨٨٤٨ ۔

سوال : عیسائیوں کی مشہور عید کرسماس جو ماہ دسمبر کے آخر میں آتی ہے اس میں شریک ہونا جائز ہے یا نہیں ؟ ہمارے یہاں بعض وہ حضرات جنکا شمار تو اہل علم میں ہوتا ہے لیکن وہ اس عید کے موقعہ پر عیسائیوں کی مجلس میں بیٹھتے اور اسکے جواز کا فتوی دیتے ہیں ، کیا ان کی یہ بات صحیح ہے ؟ اور کیا اسکے جواز پر انکے پاس کوئی شرعی دلیل ہے ، یا نہیں ؟

جواب : الحمد للہ وحدہ والصلاة و السلام علی رسولہ وآلہ وصحبہ وبعد !

عیسائیوں کی عیدوں میں انکے ساتھ شرکت جائز نہیں ہے ، اگرچہ علم سے نسبت رکھنے والے بعض لوگ اس میں شریک ہورہے ہوں ، کیونکہ اس سے انکی تعداد میں اضافہ اور گناہ کے کام میں انکے ساتھ تعاون ہے ، جبکہ ارشاد باری تعالی ہے :

وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الِثْمِ وَالْعُدْوَان { المائدة : ٢ }

نیکی اور خیر کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے رہو اور گناہ و زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو ۔

و باللہ التوفیق و صلی اللہ علیہ و سلم علی نبینا محمد و آلہ و صحبہ و سلم ۔

علمی بحثوں اور فتوی کی دائمی کمیٹی

صدر :

{الشیخ } عبدالعزیز بن عبد اللہ بن باز

ممبران :

{الشیخ } عبد اللہ بن قعود

{ الشیخ }عبد اللہ بن غدیان

{الشیخ }عبد الرزاق عفیفی

***********

(3) کافروں کی عیدوں سے متعلق سماحةُ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کا فتوی :

عید کرسمس کے موقعہ پر کافروں کو مبارک باد پیش کرنے کے حکم سے متعلق فضیلة الشیخ ( محمد بن صالح العثیمین ) سے سوال کیا گیا اور یہ پوچھا گیا کہ اگر اس موقعہ پر وہ ہمیں مبارکباد دیں تو اسکا جواب ہم کس طرح دیں ؟ اور کیا اس مناسبت سے جو اجتماعات منعقد ہوتے ہیں اس میں شریک ہونا جائز ہے ؟ نیز کیا مذکورہ کاموں میں سے کسی کام کے بغیر قصد ، ارتکاب سے انسان گنہگار ہوگا ؟ خواہ ایسا کافروں کی دلجوئی کے طور پر یا شرم اور دبائو وغیرہ جیسے اسباب کی بنیاد پر کررہا ہو ، نیز کیا اس معاملے میں کافروں کی مشابہت جائز ہے ؟

فضیلة الشیخ رحمہ اللہ کا جواب تھا :

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عید کرسمس اور کافروں کی دیگر دینی عیدوں کے موقعہ پر انہیں مبارک باد دینا باتفاق علماء حرام ہے ، جیسا کہ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب احکام اہل الذمہ میں اسکی وضاحت کی ہے ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ” البتہ جہاں تک شعائر کفر کے ساتھ خاص کاموں پر مبارکباد پیش کرنے کا تعلق ہے تو یہ باتفاق علماء حرام ہے جیسے ان کی عیدوں اور روزے وغیرہ کے موقعہ پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا جائے ” یہ عید آپ کو مبارک ہو ” ”یہ عید آپ کیلئے خوش آئند ہو ” اس طرح کہنے والا اگر کفر سے بچ بھی جائے لیکن حرام کام میں تو ضرور واقع ہو جاتا ہے ، ایسا کرنا انکے کراس نشان کو سجدہ کرنے کے مانند ہے بلکہ اللہ تعالی کے نزدیک ایسا کرنا کسی کو شراب پینے ، جان مارنے اور زنا کرنے پر مبارکباد پیش کرنے سے بھی برا ہے ، لیکن { بدقسمتی سے } بہت لوگ جنکے یہاں دین کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی وہ ایسے کاموں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور انہیں اپنے اس عمل کی قباحت کا علم نہیں رہتا ، چنانچہ جس نے کسی بندے کو گناہ ، بدعت یا کفر کے کام پر مبارکباد پیش کیا تو اپنے آپ کو اللہ کے غضب اور ناراضگی کا مستحق ٹھہرایا ” انتہی

کافروں کو انکی دینی عیدوں کے موقعہ پر مبارکباد پیش کرنا بقول امام ابن القیم رحمہ اللہ اس قدر حرام اسلئے ہے کہ کفار اپنے کفر کے جس شعیرہ پر ہیں اس میں اس پر اقرار اور اس کام پر انکے لئے موافقت ہے ، اگرچہ وہ اس کفر کو اپنے لئے پسند نہ کررہا ہو، جبکہ مسلمان پر حرام ہیکہ وہ شعائر کفر سے راضی رہے یا اس پر مبارکباد پیش کرے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالی اس کام سے راضی نہیں ہو تا جیسا کہ اسکا فرمان ہے :

إن تَکْفُرُوا فَِنَّ اللَّہَ غَنِیّ عَنکُمْ وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَ {الزمر : ٧ }

اگر تم کفر کرو تو یاد رکھو کہ اللہ تعالی تم سب سے بے نیاز ہے اور اپنے بندوں کیلئے کفر کو پسند نہیں کرتا ۔

ایک اور جگہ ارشاد ہے :

الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الِسْلاَمَ دِیْناً { المائدہ : ٣ }

آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہوگیا ۔

{ خلاصہ یہ کہ } کافروں کو انکی عید کے موقعہ پر مبارکبادی پیش کرنا حرام ہے خواہ انکے ساتھ ایک جگہ کام کرتے ہوں یا نہیں ۔

اور اگر کافر اپنی عیدوں کے موقعہ پر ہمیں مبارکباددیں تو اس پر ہم انکا جواب نہ دیں گے کیونکہ یہ ہماری عید نہیں ہے اور اس لئے بھی کہ انکی عیدیں ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالی پسند نہیں فرماتا ، کیونکہ یا تو وہ عید انکے دین میں نئی ایجاد شدہ ہوگی ، یا انکے دین میں تو مشروع رہی ہوگی ، لیکن اس دین اسلام کے ذریعہ اسے منسوخ کردیا گیا ہے جس دین کو نبی کریم ۖ تمام مخلوق کیلئے لیکر آئے ہیں اس سلسلے میں ارشاد باری تعالی ہے :

وَمَن یَبْتَغِ غَیْْرَ الِسْلاَمِ دِیْناً فَلَن یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِیْن {آل عمران : ٥٨ }

جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اسکا دین قبول نہ کیا جائیگا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا ۔

نیز اس مناسب سے انکی دعوت قبول کرنا بھی مسلمان کیلئے حرام ہے بلکہ یہ تو انہیں مبارک باد دینے سے بھی زیادہ قبیح ہے، کیونکہ اس صورت میں انکے ساتھ انکی عید میں شرکت پائی جاتی ہے ۔

اسی طرح مسلمان کیلئے یہ بھی حرام ہیکہ اس مناسبت سے میلے لگا کر کافروں کی مشابہت اختیار کریں یا آپس میں ہدیہ کا لین دین کریں ، شیرینی تقسیم کریں ،کھانے بھری طشتریوں وغیرہ وغیرہ کا تبادلہ کریں یا کاروباربند کریں وغیرہ ، کیونکہ نبی ۖ کا فرمان ہے : من تشبہ بقوم فھو منھم ،

جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفة أصحاب الجحیم میں لکھتے ہیں کہ :

کافروں کی بعض عیدوں میں انکی مشابہت اختیار کرنے سے جس باطل { عقیدہ و دین } پروہ ہیں اپنے دل میں قوت و انشراح محسوس کریں گے اوریہ بھی خطرہ ہے کہ موقع پر کمزور مسلمانوں کو رسوا اور ذلیل کرنے کی کوشش کریں گے ، انتہی …..

اس لئے جس شخص نے بھی ایسا کیا وہ گنہگار ہے خواہ ایسا انکی دلجوئی کے طور پر ، انکی محبت میں یا شرم و حیا جیسے کسی اور سبب سے کررہا ہو ، کیونکہ یہ اللہ تعالی کے دین کے بارے میں نرم روی اختیار کرنا ہے ، کافروں کے دل کو تقویت دینے کا ذریعہ اور انکا اپنے دین پر فخر محسوس کرنے کا سبب ہے ۔

اللہ تعالی سے دعا ہیکہ مسلمانوں کو دین کے ذریعہ عزت بخشے، اسی پر ثابت قدمی عطا فرمائے ، اور دشمنوں کے خلاف انکی مدد کرے ، بیشک وہ بڑا ہی طاقتور اور غالب ہے ۔

بقلم محمدبن صالح العثیمین

١٤١٠ھ

***********

(4) فضیلة الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کاعیدمحبت سے متعلق ایک اور فتوی :

فضیلة الشیخ سے درج ذیل سوال کیا گیا :

آج کل عید محبت کا اہتمام عام ہو چکا ہے خاصکر پڑھنے والی بچیوں کے درمیان ، حقیت میں یہ عیسائیوں کی ایک عید ہے جس میں ہر لباس خواہ جوتا ہو یا کپڑا سرخ رنگ کا پہنا جاتا ہے ، اس مناسبت سے لڑکیاں آپس میں سرخ پھولوں کا تبادلہ کرتی ہیں . آنجناب سے گزارش ہے کہ اس عید کے منانے کا حکم واضح کریں ، نیز ایسے موقعہ پر آپ عمومی مسلمانوں کو کیا نصیحت فرماتے ہیں ؟ اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کی نگرانی کرے ۔ آمین

فضیلة الشیخ رحمہ اللہ کا جواب تھا :

عیدمحبت منانا جائز نہیں ہے ، جسکی متعدد وجہیں ہیں :

(1) یہ ایک ایسی عید ہے جسکی شریعت اسلامیہ میں کوئی اصل نہیں ہے ۔

(2) یہ عید عشق اور جان توڑ محبت کی طرف دعوت دیتی ہے ۔

(3) ایسے حقیر کاموں میں دل لگانے کی دعوت دیتی ہے جو سلف صالحین کے طریقے کے خلاف ہے ، اس لئے یہ جائز نہیں ہے کہ اس دن کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے یا تحفے تحائف اورلین دین وغیرہ جیسے کام اپنائیں، جو عید کے موقعہ پر انجام دئے جاتے ہیں ،

مسلمان کو چاہئے کہ اپنے دین پر فخر محسوس کرے اور ہر بلانے والے کے پیچھے بغیر سوچے سمجھے نہ چل پڑے ….. الخ ۔

***********

(5) فضیلة الشیخ عبد اللہ بن عبد العزیز الجبرین حفظہ اللہ کا فتوی :

اسی طرح فضیلة الشیخ عبدا للہ بن جبرین حفظہ اللہ سے عید محبت منانے سے متعلق پوچھا گیا ، تو آپ نے جواب دیا کہ : اس قسم کی عیدوں کا اہتمام کرنا جائز نہیں ہے ، اسی طرح مسلمان پر حرام ہے کہ اس عید یا اس قسم کی دوسری غیر شرعی عیدوں پر کسی قسم کا تعاون کریں ، کھانے پینے میں ہو یا خرید و فروخت میں ، ہدیہ و تحفہ پیش کرنا ہو یا خط و کتاب اور اعلان وغیرہ کے ذریعہ ۔

اور اللہ کے فضل و کرم سے بلا د حرمین میں تعلیم و تربیت کے ذمہ داران { اللہ انکو مزید توفیق بخشے } مدرسوں میں اس عید سے متعلق کسی چیز کے اظہار کی اجازت نہیں دیتے ، اسلئے اسکولوں اور کالجوں میں کام کرنے والے تمام حضرات کو چاہئے کہ اس بارے میں مناسب نصیحتیں و توجیہی کلمات کا اہتمام کریں ، پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیوں کو اسلامی اخلاق و عادات پر ابھاریں ، خود بھی عمدہ اخلاق کا نمونہ پیش کریں ،غیر مسلموں کی مسلم مخالف عیدوں اور لباس و عادات میں انکی تقلید و مشابہت سے دور رہنے کی دعوت دیں ۔

اللہ تعالی سے دعا ہیکہ سب کو اپنی مرضی کے موافق پسندیدہ عمل کی توفیق بخشے ۔

وصلی اللہ علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین ۔۔۔۔

{ ماخوذ از : کتاب یوم عاشقاں ، مطبوعہ از : جالیات الغاط }

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى