– ابو لہب اور جش عيد ميلاد
الحمد للہ والصلاۃ و السلام علي رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم ، وبعد
محترم قاري !
باطل فرقوں اور منہج قويم سے ہٹي ہوئي جماعتوں کا ہميشہ سے ايک نشان امتياز ” ہوا پرستي ” رہي ہے، يعني دلائل سے سروکار کم اور خواہش نفس کي پيروي زيادہ رہي ہے ، دلائل سے واسطہ کم اور رسم و رواج کي پيروي پر توجہ زيادہ مرکوز رہي ہے ، اور عقل و سمجھ سے کام کم اور جذبات سے تعلق زيادہ رہاہے ، چنانچہ جب بھي کوئي عمل انہيں پسند آگيا اور ان کي خواہش کے موافق ٹھہرا، اسے فورا قبول کرليا اور اس پر اس طرح عمل پيرا ہوگئے کہ گويا قرآن و حديث سے ثابت شدہ اور علماء کے نزديک متفق عليہ مسئلہ ہے ، ليکن چونکہ عوام کو خاموش کرنا اور ان کا اعتماد حاصل کرنا ضروري ہوتا ہے لہذا اپنے اس بدعي عمل کے لئے قرآن وحديث سے دليليں ڈھونڈنا شروع کرديتے ہيں ،پھر اگر بدقسمتي سے ان کي سمجھ کے مطابق کوئي ايک آيت يا حديث انہيں مل جاتي ہے تو اسے لے اڑتے ہيں اور اس طرف کوئي توجہ نہيں ديتے کہ ان کا اخذ کردہ مفہوم عربي اسلوب خطاب سے موافقت رکھتا ہے يا نہيں رکھتا ، آيت و حديث کا يہي مفہوم صحابہ و تابعين اورعلماء سلف نے بھي سمجھا ہے يا يہ ان کا خود ساختہ مفہوم ہے ، نيز اس طرف بھي کوئي توجہ نہيں ہوتي کہ يہ آيت و حديث منسوخ و متشابہ کے قبيل سے ہے کہ محکم اور معمول بہا ہے ، نيز يہ حضرات احاديث کے سلسلے ميں اس قدر آزاد ہوتے ہيں کہ انہيں اس کي کوئي فکر نہيں رہتي کہ يہ حديث صحيح و قابل حجت ہے يا کہ ضعيف و من گھڑت ،حتي کہ عمومي طور پر ناظرين يہ ديکھيں گے کہ يہ حضرات بخاري و مسلم اور ديگر صحيح و معروف حديثوں کو چھوڑ کر ضعيف و موضوع اور غير معروف و شاذ حديثوں سے استدلال کرتے ہيں ، جو شخص بھي نبي اکرم حضرت محمد مصطفي صلي اللہ عليہ وسلم کے بارے ميں ان فرقوں کے عقيدۂ نور و بشر ، عالم الغيب اور مختار کل وغيرہ سے متعلق ان کے پيش کردہ دلائل پر ايک سرسري نظر ڈالے گا وہ ميري مذکورہ گزارشات سے صد فيصد اتفاق کرے گا ، حالانکہ يہود کي اسي قسم کي نازيبا حرکتوں سے متعلق اللہ تعالي کا ارشاد ہے :
[فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنَ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللهِ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي القَوْمَ الظَّالِمِينَ] {القصص:50}
” پھر اگر يہ آپ کي نہ مانيں تو يقين کرليں کہ يہ صرف اپني خواہش کي پيروي کررہے ہيں اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا اور کون ہوگا جو بغير اللہ تعالي کي رہنمائي کے اپني خواہش کے پيچھے پڑا ہوا ہو ، بيشک اللہ تعالي ظالم لوگوں کو ہدايت نہيں ديتا ” ۔
ماہ ربيع الاول ميں عيد ميلا د النبي عليہ افضل الصلاۃ و اتم التسليم سے متعلق بھي منہج قويم سے ہٹے ہوئے فرقوں نے يہي کچھ کياہے ، چنانچہ وہ يہ تو اعتراف کرتے ہيں کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم صحابہ کرام اور آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي وفات کے بعد صديوں تک علمائے کرام اس بدعت کو جانتے بھي نہ تھے ، ليکن چونکہ يہ عمل ان کي خواہش کے مطابق اور شيطان کي رضامندي کا تھا ،لہذا عوام کو خاموش کرنے کے لئے قرآن و حديث سے اس کے لئے دلائل ڈھونڈنا شروع کرديا پھر کيا تھا ؟ ان لوگوں کي چالاکي اور بعض علماء و حفاظ کي کوتاہي اور اتباع کتاب و سنت سے متعلق بعض نرم و لچک رويے کي وجہ سے انہيں کچھ دلائل ميسر آ گئے ، انہيں دلائل ميں سے ايک مشہور دليل ابولہب کي لونڈي حضرت ثويبہ رضي اللہ عنہا کي آزادي اور اسکے عوض ابو لہب کے عذاب ميں تخفيف ہے ، چنانچہ ہر سال ماہ ربيع الاول کے آتے ہي جاہل لوگوں کي زبان و قلم اور سيدھے سادے عوام کي زبان پر يہ قصہ گھومنے لگتا ہے ، ليکن شرعي اور اصول تحقيق کے لحاظ سے اس دليل کي کيا حيثيت ہے، اس کي طرف يہ حضرات توجہ نہيں ديتے ، چونکہ ہر سال اس قصہ سے متعلق سوالات ہوتے رہتے ہيں، لہذا ذيل ميں اس کي حقيقت واضح کي جاتي ہے ۔
اصلي قصہ :
بيان کيا جاتا ہے کہ ابولہب کي ايک لونڈي تھي جس کا نام ثويبہ تھا ، يہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي رضاعي ماں تھيں، کيونکہ حضرت حليمہ سعديہ کي آمد سے قبل انہوں نے ہي آپ صلي اللہ عليہ وسلم کو دودھ پلايا تھا ، امام بخاري رحمہ اللہ اپني صحيح ميں رضاعت اور اس سے ثبوت حرمت سے متعلق ايک حديث نقل کرنے کے بعد حضرت عروہ بن زبير رحمہ اللہ کا يہ قول نقل کياہے کہ ثويبہ ابولہب کي لونڈي تھيں جسے ابولہب نے آزاد کرديا تھا ، چنانچہ انہوں نے نبي صلي اللہ عليہ وسلم کو دودھ پلايا ، جب ابولہب کا انتقال ہوا تو اس کے گھر کے کسي فرد نے خواب ديکھا کہ ابولہب بہت بري حالت ميں ہے ، خواب ديکھنے والے نے پوچھا کہ اللہ تعالي نے تيرے ساتھ کيسا سلوک کيا ؟ ابولہب نے جواب ديا کہ تم لوگوں سے رخصت ہونے کے بعد مجھے کوئي آرام نہيں ملا سوا اس کے کہ ثويبہ کو آزاد کرنے کے عوض مجھے اس سے کچھ پينے کو مل جاتا ہے ، يہ کہتے ہوئے اس نے اپنے انگوٹھے اور شہادت کي انگلي کے درميان کي جگہ کي طرف اشارہ کيا ۔
{ صحيح بخاري ، کتاب النکاح ، حديث: 5101 کے بعد – دلائل النبوۃ للبيھقي :1/149 – مصنف عبد الرزاق :4/478 – طبقات ابن سعد : 1/108 } ۔
بعض رويات ميں يہ ہے کہ جب حضرت ثويبہ نے نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے ولادت کي خبر آپ کے گمراہ چچا ابولہب کو دي تو ابولہب نے خوشي ميں اسے اپنے ہاتھ کي انگلي سے اشارہ کيا اور حضرت ثويبہ کو آزاد کرديا ۔
{جامع الاصول :11/477 ، نقلا عن رزين – الروض الانف :3/67 } ۔
وجہ استدلال :
اس قصے سے وجہ استدلال يہ ہے کہ جب ابولہب جيسا کافر اور دشمن رسول شخص کو نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي ولادت کي خوشي اور اس موقعہ سے خرچ کرنے سے اس پر سے عذاب ميں تخفيف ہوسکتي ہے تو ہم مسلمانوں کو آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي ولادت کے موقعہ پر خوش ہونےا ور خرچ کرنے کا زيادہ حق حاصل ہے، اور جب ابو لہب کے عذاب ميں تخفيف ہوسکتي ہے تو عيد ميلاد منانے پر ہميں جنت ضرور ملے گي ۔
ليکن اس استدلال ميں کتنا وزن ہے اور مسئلہ جشن ميلاد سے اس کا کيا تعلقہ ہے ؟ اسے درج ذيل نقاط پر غور کرنے سے بآساني سمجھا جاسکتا ہے :
[1] باتفاق علماء يہ حديث ضعيف اور ناقابل استدلال ہے ، کيونکہ حضرت عروہ رحمہ اللہ تابعي ہيں ، انہوں نے نہ تو نبي صلي اللہ عليہ وسلم کا زمانہ پايا ہے اور نہ ہي يہ بيان کيا ہے يہ واقعہ انہوں نے کس سے سنا ہے ؟ ۔
{ فتح الباري : 9/145 – عمدۃ القاري :20/95 } ۔
کسي کو يہاں يہ دھوکہ نہيں ہونا چاہئے کہ يہ واقعہ صحيح بخاري ميں مذکور ہے، کيونکہ امام بخاري رحمہ اللہ نے اس قصہ کو مرسلا روايت کيا ہے ، نہ تو اس کي کوئي سند ذکر کي ہے اور نہ ہي اس سے کسي مسئلے پر استدلال ہے ، اور علماء کے نزديک صحيح بخاري کي وہي حديثيں صحيح اور قابل حجت ہيں جو متصلا اور موصولا بيان ہوئي ہيں، حقيقت جيسا کہ ايک ادني طالب بھي اس کو سمجھتا ہے ۔
واضح رہے کہ اصل حديث کو جس کے بعد امام بخاري رحمہ اللہ نے يہ قصہ نقل کيا ہے اسے امام موصوف کے علاوہ امام مسلم ، امام ابو داود ، امام نسائي اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ نے بھي روايت کيا ہے ليکن اس کے آخر ميں اس قصے کا ذکر نہيں ہے ۔
[2] يہ خواب کا معاملہ ہے اورخواب سے کوئي شرعي مسئلہ ثابت نہيں ہوتا ، الا يہ کہ وہ خواب انبياء عليہم السلام کا ہو ۔
{ فتح الباري : 9/145- الکواکب الداري : 19/79 } ۔
ہاں اگر خواب کے سچے ہونے کا کوئي قرينہ پايا جائے تو خواب پر عمل کيا جاسکتا ہے، البتہ اس سے کسي شرعي مسئلہ کو ثابت نہيں کيا جاسکتا ۔
[3] اس خواب کے ديکھنے والے کے بارے ميں کچھ بھي معلوم نہيں ہے کہ وہ کون تھا ؟ مسلمان تھا يا کافر ؟ بعض سيرت کي کتابوں ميں لکھا ہے کہ خواب ديکھنے والے ابو لہب کے بھائي حضرت عباس بن عبد المطلب تھے ، اور يہ خواب انہوں نے ابولہب کي موت کے ايک سال بعد ديکھا تھا ، اس طرح گويا حضرت عباس ابھي تک مسلمان نہيں ہوئے تھے، کيونکہ وہ فتح مکہ کے سال مسلمان ہوئے ہيں اور ابولہب کا انتقال غزوۂ بدر کے بعد کا ہے ، لہذا ان کے خواب کا بھي کوئي اعتبار نہيں ہے ، چہ جائے کہ ا سے کسي شرعي مسئلے کي دليل بنائي جائے ۔
{ فتح الباري : 9/145 – عمدۃ القاري : 20/95 – ارشاد الساري : 8/31 } ۔
[4] اہل تاريخ و سير کا اس بارے ميں اختلاف ہے کہ ابولہب نے ثويبہ کو کب آزاد کيا تھا ؟ صحيح بخاري ميں مذکور حضرت عروہ کے اس قول سے بظاہر يہ معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت انہوں نے نبي صلي اللہ عليہ وسلم کو دودھ پلايا تھا وہ آزاد تھيں ، اور ” روض الانف للسھيلي ” وغيرہ سے پتہ چلتا ہے کہ ابولہب نے انہيں نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي پيدائش کي خبر سن کر آزاد کيا تھا ، اہل تاريخ و سير ميں سے اکثر کا رجحان اس طرف ہے کہ حضرت ثويبہ ابولہب کي ملکيت ميں ہجرت نبوي کے کچھ بعد تک تھيں ، حتي کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي شادي کے بعد وہ حضرت خديجہ کے پاس آتي تھيں نبي صلي اللہ عليہ وسلم اور حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا ان کي بہت قدر کرتے تھے ، بلکہ حضرت خديجہ ابو لہب سے بار بار مطالبہ کرتي تھيں کہانہيں ميرے ہاتھ فروخت کردو تاکہ ميں انہيں آزاد کردوں ، ليکن ابو لہب انکار کرتا رہا ، پھر جب آپ صلي اللہ عليہ وسلم ہجرت کرکے مدينہ منورہ چلے آئے تو ابولہب نے انہيں آزاد کيا ۔
{ طبقات ابن سعد :1/108 – الاصابہ : 4/258 – فتح الباري : 9/145 – الوفاء باخبار المصطفي : 1/806، 807 ،وغيرہ کتب سير و تواريخ } ۔
معلوم ہوا کہ اس قصے کا عيد ميلا د سےکوئي تعلق نہيں ہے ۔
[5] اس حديث کي شرح سے متعلق ہم نے متعدد کتابوں کي طرف رجوع کيا ، بخاري شريف کي تقريبا تمام موجودہ شرحوں کو ديکھا ليکن کسي بھي شارح نے اس سے عيد ميلاد پر استدلال نہيں کيا ہے بلکہ يہ قصہ کسي اور مسئلے پردليل ہے جس کاذکر آگے آرہا ہے ۔
[6] بشرط صحت اس قصہ سے يہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ کافروں کے وہ اعمال جو اللہ تعالي کے بندوں پر احسان سے تعلق رکھتے ہيں ان کي وجہ سے ان کے عذاب ميں تخفيف ہوسکتي ہے جيسا کہ ابوطالب کے بارے ميں صحيح حديث وارد ہے ، البتہ يہ مسئلہ صرف نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے ساتھ خاص ہے يا تمام لوگوں کے لئے عام ہے ، اس سلسلے ميں علماء کا اختلاف ہے ، بظاہر يہي معلوم ہوتا ہے کہ وہ کافر جو مسلمانوں کے ساتھ خير خواہي سے پيش آتا رہا ہے وہ اور وہ کافر جو مسلمانوں پر ظلم ڈھاتا رہا ہے دونوں برابر نہيں ہوسکتے ۔
{ شعب الايمان للبيھقي : 1/445 – فتح الباري : 9/ 145 } ۔
[7] اگر يہ قصہ صحيح ثابت ہوجائے تو اس سے صرف يہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي پيدائش و بعثت پر خوش ہونا باعث ثواب اور رب کائنات کي رحمت کا سبب ہے ، اور يہ ايسا مسئلہ ہے جس کا منکر کوئي بھي مسلمان نہيں ہے بلکہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي ميلاد و بعثت پر خوشي اور آپ کي امت ميں شامل ہونے کا فخر ہر مسلمان کي بڑي اہم نيکيوں ميں ہے ، اور جو شخص آپ کي ميلاد و بعثت پر خوش نہيں ہے شايد اس کا ايمان خطرے ميں ہے ، ليکن کيا خوشي کا واحد طريقہ جشن منانا ہے ، جھوٹے اور غلو آميز قصے سننا اور نعتيں گانا ہے ؟ حتي کہ اس جشن اور جلسے ميں اب تو باجے اور موسيقي کا بھي استعمال ہوتا ہے ، جب کہ اسلام نے ہميں خوشي و غمي کے کچھ آداب سکھلائے ہيں جن کا پاس و لحاظ ضروري ہے ، ذرا اس حديث نبوي پر غور کريں ، آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا :
صوتان ملعونان في الدنيا والآخرة مزمار عند نعمة ورنة عند مصيبة
{ مسند البزار – مجمع الزوائد :3/13 ، بروايت انس بن مالک } ۔
“دو آوازيں دنيا و آخرت ميں ملعون ہيں خوشي و نعمت کے حصول کے وقت موسيقي اور مصيبت کے وقت رونا و بين کرنا “
ايک اور حديث ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم کا ارشاد ہے : مجھے رونے سے نہيں روکا گيا ، البتہ دو احمق اور فاجر آوازوں سے ضرور منع کيا گيا ہے، ايک وہ شيطاني آواز جو باجے اور موسيقي کي شکل ميں خوشي کےوقت ہوتي ہے اور دوسري جو مصيبت کے وقت منھ نوچنے اور گريبان چاک کرکے چيخنے و چلانے کي شکل ميں ہوتي ہے ۔
{ مستدرک الحاکم : 4/40 ، بروايت عبد الرحمن بن عوف } ۔
خلاصہ کلام يہ کہ اس حديث و قصے کا تعلق عيد ميلا دکا جشن منانے سے دور کا بھي نہيں ہے اور اگر عيد ميلاد منانے والوں کے ديگر دلائل کو ديکھا جائے تو تمام کے تمام اسي قبيل سے ہيں ، اللہ تعالي سے دعا ہے کہ ہر مسلمان کو حق پر چلنے کي توفيق عطا فرمائے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔آمين ۔
ختم شدہ