موسمي مضامين

سردی کا موسم – مومن کیلئے موسم بہار

سردی کا موسم – مومن کیلئے موسم بہار
(1/2)
یہ سردی کا موسم ہے ، لوگوں کے لباس وہیئت پر ہر طرف سے سردی کے آثار ظاہر ہیں ، بعض علاقوں میں سردی سے لوگ سخت پریشان ہیں ، ہر شخص نے اپنی اپنی حیثیت و وسعت اور علاقے کے مطابق گرم کپڑے ، لحاف اورمکان رہائش کا انتظام کیا ہے ، حتی کہ بازاروں اور سڑکوں پر بھی موسم سرما کی آمد کےآثارپائے جارہے ہیں ، ایسے موقعہ پر اپنی بساط ، مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے لوگوں کے رجحانات مختلف ہیں ، کوئی سردی سے کبیدہ خاطر ہے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنکی زبانوں پر سردی کی برائی ہے اور ایسے لوگ بھی ہمیں ملیں گے جنکے لئے موسم سرما کی آمد خوشی کا باعث ہے ۔
لیکن شرعی اعتبار سے موسم سرما سے متعلق ایک مومن کا موقف کیا ہونا چاہئے اس سے عمومی طور پر لوگ غفلت میں ہیں ، لہذا موسم سرما کی مناسبت سے خیر کے طالب مسلمانوں بھائیوں کے لئے چند ہدایات رکھی جارہی ہیں ۔
1- سردی کا اصل سبب :
اس دنیا میں کسی بھی چیز کے وجود کا اللہ تبارک وتعالی نے ایک سبب رکھا ہے جسکا علم عام طور پر لوگوں کو ہے ،مثلا بارش کا ایک سبب ہے گرمی کا ایک سبب ہے اسی طرح رات و دن کی آمد کا ایک سبب ہے لیکن بسا اوقات کسی چیز کے وجودکا ایک باطنی سبب بھی ہوتا ہے جسکا علم صرف عالم الغیب ولشہادہ کے پاس ہے ، البتہ اگر وہ چاہتا ہے تو اپنے مخصوص بندوں کو ان میں سے بعض چیزوں کا علم دے دیتا ہے ، چنانچہ اس دنیا میں سردی وگرمی کا ایک محسوس سبب ہے جسے عام طور پر لوگ جانتے اور پہچانتے ہیں جیسے سورج کی گردش ، موسم سرما یا گرما کا داخل ہونا اور ہوائوں کا چلنا وغیرہ ، لیکن اسکا ایک باطنی سبب بھی ہے جسکا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں ملا ہے ، چنانچہ صحیح بخاری ومسلم اور دیگر کتب حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اشتکت النار الی ربہا فقالت : یارب اکل بعضی بعضا ، فاذن لہا نفسین نفسا فی الشتاء ونفسا فی الصیف ، فاشد ماتجدون من الحر من سموم جہنم واشد ماتجدون من البرد من زمہریر جہنم { صحیح بخاری : 537 المواقیت ، صحیح مسلم : 617 المساجد بروایت ابوہریرہ }
جہنم نے اپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے کہا : اے میرے رب ؛ میرے ایک حصے نے دوسرے کوکھا لیا ،لہذا اللہ تعالی نے اسے دوسانس کی اجازت دے دی ، ایک سانس سردی کے موسم میں اور دوسرا سانس گرمی کے موسم میں ، اسطرح تمہیں جو سخت گرمی محسوس ہوتی ہے وہ جہنم کی گرمی کی وجہ سے ہے اور جو سخت سردی محسوس ہوتی ہے وہ جہنم کے زمہریر کی وجہ سے ہے ۔
ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے : اذا اشتد الحر فابردوا بالصلاۃ فان شدۃ الحر من فیح جہنم {صحیح البخاری :534 المواقیت ،صحیح مسلم :615 المساجد بروایت ابوہریرہ }
جب گرمی سخت ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو ، ، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی گرمی کی وجہ سے ہے ۔
ان دونوں حدیثوں سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ سردی وگرمی کے اس ظاہر سبب کے علاوہ جو لوگوں کو معلوم ہے اسکا ایک باطنی اورحقیقی سبب بھی ہے اور وہ ہے جہنم کے دو سانس ، یعنی جہنم جب اپنا سانس باہر کرتی ہے تو موسم گرم ہوجاتا ہے اور جب وہی سانس جہنم اندر کرتی ہے تو موسم میں سردی چھا جاتی ہے ۔نیز ان حدیثوں سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوا کہ اہل سنت وجماعت کے عقیدہ کے مطابق جنت وجہنم مخلوق اور اس وقت بھی موجود ہیں، البتہ اسکا مکان وجود کہاں ہے یہ صرف اللہ تعالی کو معلوم ہے ۔
2- فطری وطبعی چیزوں کو برا بھلا مت کہو :
چونکہ سردی وگرمی اللہ تعالی کی مخلوق ہیں ، ان میں سختی وگرمی بحکم الہی ہے لہذا انھیں گالی دینا اور برا بھلا کہنا جائز نہیں ہے ، چنانچہ حدیث قدسی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے :یوذینی ابن آدم یسب الدھر وانا الدھر اقلب اللیل و النہار۔ { صحیح البخاری : 4826 بدء الخلق ، صحیح مسلم : 2246 الادب بروایت ابوہریرہ}
آدم کابیٹا مجھ کو دکھ دیتا ہے ، اسطرح کہ وہ زمانے کا گالی دیتا ہے ، حالانکہ میں زمانہ ہوں ، رات ودن کو میں ہی پھیر تا ہوں ۔
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوا اور اس طرح کی دیگر فطری اور بحکم الہی آنے جانے والی چیزوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ، کیونکہ علی سبیل المثال ہوا حکم الہی کے تابع ہو کر چلتی ہے، اب اسے برا کہناگویا اسکے خالق اور اسمیں متصرف ذات کو برا کہنے کے ہم معنی ہےلہذا اگر کوئی شخص سخت یا تیز و تند ہوا دیکھے تو برا بھلا کہنے کے بجائے یہ چاہئے کہ وہ اللہ تعالی سے دعا کرے کہ اس ہوا کے شر سے اسے محفوظ رکھے اور اسمیں جو حیر کا پہلو ہو اس سے محروم نہ کرے ۔{سنن ابو داود:5097 الادب ، سنن ابن ماجہ : 3727 الادب بروایت ابو ہریرہ}
اسی شرعی قاعدے کے تحت ہر مسلمان کو چاہئے کہ جہاں وہ سردی سے بچنے کے لئے ظاہری اسباب اختیار کرے وہیں اس طرف بھی توجہ دے کہ اس موسم میں ہمارے لئے خیر کے پہلو کیا ہیں؟ کیونکہ اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتاہے : وھو الذی جعل اللیل والنہار خلفۃ لمن اراد ان یذکر اواراد شکورا {الفرقان:62}اور اسی نے رات و دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا ، اس شخص کی نصیحت کے لئے جو نصیحت حاصل کرنے یا شکر گزاری کرنے کا اردہ رکھتا ہو ۔
3- موسم سرما میں مومن کے لئے خیر کے پہلو:
ا – روزہ : روزہ کو اسلام میں جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے ، یہی کیا کم ہے کہ حدیث قدسی میں ارشاد نبوی ہے : اللہ تعالی فرماتا ہے : کل عمل ابن آدم لہ الا الصوم فانہ لی وانا اجزی بہ ۔۔الحدیث {صحیح البخاری : 1894 الصوم ، صحیح مسلم : 1151 الصوم بروایت ابو ہریرہ }
ابن آدم کے تمام اعمال اسکے لئے ہیں سوا روزے کے جو میرے لئے ہے اور میں ہی اسکا اجر دوں گا ۔
علاوہ ازیں روزے کو اللہ تعالی نے جہنم سے ڈھال اور جنت کا راستہ قرار دیا ہے ، روزے دار کی دعاوں کی قبولیت کا اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے ، روزہ دار کی منھ کی بو مشک سے بھی زیادہ پسند کرتا ہے اور روزہ داروں کے لئے جنت کا ایک دروازہ خاص کر رکھا ہے وغیرہ {دیکھئے صحیح الترغیب 1/ 576 وبعدھا }
اب اگر غور کیا جائے تو نیکیوں پر حریص مسلمان موسم سرما میں ان فضیلتوں کو بڑی آسانی سے حاصل کرسکتا ہے ، کیونکہ سردی کے موسم میں دن چھوٹا ہوتا ہے ، موسم ٹھنڈا رہتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو بھوک و پیاس کا احساس کم اور کم ہی ہوتا ہے ، لہذا بڑیآسانی سے روزہ رکھا جاسکتا ہے مسلمانوں کی توجہ اسی طرف دلاتے ہوئے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الغنیمۃ الباردۃ الصوم فی الشتاء {سنن الترمذی : 797 الصوم ، مسند احمد :4/335 بروایت عامر بن سعود }
ٹھنڈی {بڑی آسان } غنیمت یہ ہے کہ سردی کے موسم میں روزہ رکھا جائے ۔
یعنی جسطرح وہ مال جو اللہ کے دشمنوں سے حاصل ہو اور اسمیں لڑائی نہ کرنی پڑے ، مٹھ بھیڑ نہ ہو اور نہ ہی جان کا خطرہ مول لینا پڑے تو اس سے ایک انسان کسقدر خوش ہوتا ہے اور اسے حاصل کرنے کی طرف کسقدرراغب ہوتا ہے اسی طرح سردی کے موسم میں روزہ بلا مشقت و پریشانی کے رکھا جا سکتا ہے ۔
ب – تہجد کی نماز :
تہجد اور شب بیداری اللہ تعالی کےنیک بندوں اور جنت کے وارثین کا شیوہ رہا ہے ، ارشاد ربانی ہے ، وکانوا قلیلا من اللیل ما یہجعون و با لآ سحارھم یستغفرون۔{الذاریات :18،17 }
وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے اور وقت سحر استغفار کیا کرتے تھے ۔
والذین یبیتون لربہم سجداوقیاما { الفرقان : 64}
اور {اللہ رحمان و رحیم کے خاص بندے وہ ہیں }جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزارتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :علیکم بقیام اللیل فانہ داب الصالحین قبلکم وھو قربۃ الی ربکم ومکفرۃ للسیئات ومنہاۃ للاثم ۔{سنن الترمذی :3549 الدعوات ، مستدرک الحاکم 1/321 بروایت ابو امامۃ }
تم لوگ قیام اللیل کا اہتمام کرو اسلئے کہ یہ تم سے قبل نیک لوگوں کا طریقہ رہا ہے اور یہ تمھارے رب کی قربت کے حصول کا ذریعہ ہے ، قیام اللیل گناہوں کی معافی اور گناہوں سے بچنے کا سبب ہے ۔
نیز فرمایا :اقرب مایکون الرب من العبد فی جوف اللیل الآخر فان استطعت ان تکون ممن یذکر اللہ فی تلک الساعۃ فکن۔{ سنن الترمذی : 3579 الدعوات ، صحیح ابن خزیمہ : 1147 بروایت عمرو بن عسبہ }
اللہ تبارک و تعالی اپنے بندوں کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصہ میں ہوتا ہے ، لہذا اگر تم سے ہو سکے تو ان لوگوں میں شامل ہو جائو جو اس وقت اللہ تعالی کو یاد کرتے ہیں ۔
قابل غور ہے کہ موسم سرما کی راتیں قیام اللیل اور تہجد کے لئے کسقدر مناسب ہیں کیونکہ موسم سرما کی راتیں اسقدر طویل ہوتی ہیں کہ بندہ اگر رات میں دیر گئے سوئے تو بھی تہجد کے لئے آسانی سے بیدار ہو سکتا ہے اسلئے کہ جن دنوں میں یہ سطریں لکھی جارہی ہیں عشاء کی اذان اور طلوع فجر کے درمیان دس گھنٹے سے زیادہ کا وقفہ ہے ، اب اگر ایک مسلمان اس میں سے چار گھنٹے بھی اپنے ضروریات کے لئے رکھ لے تو باقی ساڑھ پانچ گھنٹے یا اس سے زیادہ کی مدت کسی بھی شخص کے نید سے آسودہ ہونے کے لئے کافی ہیں۔ درج ذیل حدیث میں اسی طرف مومن کی توجہ مبذول کی گئی ہے : الشتاء ربیع المومن طال لیلہ فقام وقصر نہارہ فصام { مسند احمد : 3/75 ،شعب الایمان 3/416، مسند ابویعلی :1386 بروایت ابو سعید الخدری ، امام نور الدین رحمہ اللہ اس حدیث کو حسن کہتے ہیں جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے }
سردی کا موسم مومن کے لئے بہار کا موسم ہے کہ اسکی راتیں لمبی ہوتی ہیں جنمیں وہ قیام کرلیتا ہے اور دن چھوٹے ہوتے ہیں جنمیں وہ روزے رکھ لیتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کے بہت سے نیک بندے موسم سرما کی آمد پر خوش ہوتے تھے ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ موسم سرما کی آمد پر فرماتے :سردی کو خوش آمدید ، اس موسم میں برکتیں نازل ہوتی ہیں ، اس طرح کہ تہجد کے لئے رات طویل ہوجاتی ہے اور روزہ رکھنے کے لئے دن چھوٹا ہوجاتا ہے ۔
ایک اور بزرگ حضرت عبید بن عمیر رحمہ اللہ موسم سرما کی آمد پر فرماتے : اے اھل قرآن تلاوت قرآن کے لئے رات لمبی ہو گئی ہے اورر وزہ رکھنے کیلئے دن چھوٹا ہوگیا ہے لہذا اس موسم میں دن کو روزہ اور رات میں تہجد کا خصوصی اہتمام کرو۔ {لطائف المعارف 453}
ج – صبر :
اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ دونوں عبادتوں میں سردی سخت رکاوٹ بنتی ہے اور اسکے لئے صبر اور برداشت کی ضرورت پڑتی ہے ، لیکن ایک مومن کو اچھی طرح جاننا چاہئے کہ صب ر وہ نیکی ہے جس پر اللہ تعالی بے حساب اجر دیتا ہے ۔ انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب {الزمر :10}
صبر کرنے والوں کو انکا اجر بے حساب دیا جائے گا ۔
ارشاد نبوی ہے : ومن یتصبر یصبر ہ اللہ ، وما اعطی احد عطاء خیراولا اوسع من الصبر { صحیح البخاری : 1469 الزکاۃ ، صحیح مسلم : 1053 الزکاۃ بروایت ابو سعید الخدری }
اور جو صبر کرنا چاہتا ہے اللہ تعالی اسے صبر کی توفیق دیگا اور {یاد رہے کہ }صبر سےبہتر اور وسیع تر کوئی عطیہ کسی شخص کونہیں دیا گیا ۔
واضح رہے کہ علماء کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں جس صبر کی فضیلت وارد ہے اسکی تین قسمیں ہیں
{1} اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ مصائب پر صبر ۔
{2} اللہ تعالی کی حرام کرہ چیزوں سے رکنے پر صبر-
{3} اللہ تعالی کے اوامر کی ادائیگی پر صبر ۔
صبر کی یہی تیسری قسم سورۃ العصر میں زیادہ واضح ہے اور اسی قسم کی سردی کے موسم میں زیادہ ضرورت پڑتی ہے لہذا جو شخص اس صبر میں کامیاب ہو گیا وہ سردی کے موسم میں تہجد بھی پڑھ لیگا اور روزہ بھی رکھ لیگا ۔ کیونکہ سردی کے موسم میں نرم وگرم بستر سے اٹھنا ، تہجد کے لئے وضو کرنا ، سردی کی حالت میں نماز میں کھڑے ہونا ، اور روزہ رکھنے کے لئے سحری کے وقت میں کچھ کھانا نیز جسم میں پانی وکھانے کی کمی کی وجہ سے جب سردی زیادہ محسوس ہوتو اسے برداشت کرنا ، یہ سب کچھ بغیر صبر کے ممکن نہیں ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
میری امت کا ایک شخص رات کو بیدار ہوتا ہے ،وضو اور اسکی پریشانی پر اپنے نفس کو مجبور کرتا ہے تو جب وضو کے لئے اپنے ہاتھوں کو دھولتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے ، جب چہرہ دھولتا ہے تو ایک اور گرہ کھل جاتی ہے ، جب سرکا مسح کرتا ہے تو ایک تیسری گرہ کھل جاتی ہے اور جب پیر دھولتا ہے تو چوتھی گرہ بھی کھل جاتی ہے ، یہ دیکھ کر پردہ کی آڑمیں موجود فرشتوں سے اللہ تعالی فرماتا ہے : میرے اس بندے کو دیکھو ؛ اپنے نفس پر زور دیکر وضوکی تکلیف برداشت کررہا ہے اور مجھ سے کچھ سوال کررہا ہے لہذا تم سب گواہ رہو کہ میرے بندے نے مجھ سے جو کچھ مانگا اسے ہم نے دے دیا ، میرے بندے نے مجھ سے جو کچھ مانگا اسے ہم نے دے دیا ۔ {مسند احمد : 4/201 ، صحیح ابن حبان 2/347 بروایت عقبہ بن عامر }
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ دو شخصوں کو دیکھکر اللہ تعالی ہنس دیتا ہے ، ایک وہ شخص جو سرد رات میں اپنے بستر اور لحاف سے اٹھکر وضو کرتا ہے ، پھر جب نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں سے پوچھتا ہے :میرے بندے کو یہ تکلیف برداشت کرنے پر کس چیز نے ابھارا ہے ؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ وہ آپ کی رحمت کا امید وار ہے اور آپ کے عذاب سے خائف ہے ، اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم لوگ گواہ رہو میں نے اسکی امیدیں پوری کردیں اور جس چیز سے خوف کھا رہا ہے اس سے امن دےدیا ۔ {الطبرانی :صحیح الترغیب 1/402 علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث موقوف ہے لیکن حکما مرفوع ہے ۔ }
مسلمان بھائی : اس سردی کے موسم میں آپ بھی اپنے رب رحیم کے ہنسنے کا سبب بن سکتے ہیں اور جسے دیکھکر اسکے رب نے ہنس دیا وہ کامیاب ہوا ۔ ذلک ھو الفوز العظیم ۔ سب سے عظیم کامیابی یہی ہے ۔

د – اکمال وضو :
وضو کو اللہ تعالی نے بڑی اہمیت دی اور وضو کرنے کی بڑی فضیلت رکھی ہے ، خاصکر اگر کوئی شخص وضو کو مکمل اور اچھی طرح سے کرتا ہے تو اسکے لئے حدیثوں میں بہت بڑی خوشخبری ہے ، ارشاد نبوی ہے :
مامن مسلم یتوضا فیحسن الوضوء ثم یقوم فیصلی رکعتین مقبلا علیہما بقلبہ ووجہ الاوجبت لہ الجنۃ۔{صحیح مسلم : 234 الطہارۃ ، سنن ابو داود : 169 الطہارۃ بروایت عقبہ بن عامر }
جب کوئی مسلمان وضو کرتا ہے اور اچھی طرح سے وضو کرکرتا ہے ، پھر کھڑا ہوکر دورکعتیں ایسی پڑھتا ہے کہ قلب و قالب سے اس میں مگن رہا تو اسکے لئے جنت واجب ہوگئی ۔
نیز فرمایا : اِسباغ الوضوء شطر الاِیمان{سنن النسائی : 2436 الزکاۃ ، سنن ابن ماجہ :280 الطہارۃ بروایت ابو مالک الاشعری } پورا پورا وضو کرنا آدھا ایمان ہے ۔
پھر اگر یہی وضو اور اسکا پورا پورا کرنا سردی کے موسم اور کراہت نفس کے باوجود ہوتو اسکا اجر مزید بڑھ جاتا ہے ۔
ارشاد نبوی ہے : « أَلاَ أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ ». قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ « إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارُ الصَّلاَةِ بَعْدَ الصَّلاَةِ فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ ». {صحیح مسلم : 251 الطہارۃ ، سنن النسائی 1/89 ، مسند احمد :2/177 بروایت ابو ہریرۃ }
کیا میں تمھیں ایسا عمل نہ بتلاوں جس کے ذریعے سے اللہ تعالی تمھارے گناہ معاف کردے اور تمھارے درجات بلند کردے؟
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ؛ کیوں نہیں ، آپ نے فرمایا : سردی کی مشقت اور ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنا ، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اور مسجدوں کی طرف کثرت سے قدم بڑھا نا ، پس یہی رباط ہے ، یہی رباط ہے ۔
گویا عام حالت میں وضو سے تو صرف گناہ معاف ہوتے ہیں ، البتہ سردی کے موسم میں اچھی طرح وضو کرنے سے گناہ ہوں کی معافی کے ساتھ جنت میں بندوں کے درجات بھی بلند ہوتے ہیں ، یہ بات اورکئی حدیثوں میں وارد ہے نیز ملا اعلی سے متعلق حدیث میں ہے کہ” اور سخت سردی کے موسم میں اچھی طرح سے وضو کرنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں رہنا {یہ وہ عمل ہے کہ} جو شخص اس پر مداومت کرلے اسکی زندگی بخیر ہے ، اسکی موت بھی بخیر ہے اور اپنے گناہوں سے ایسے ہی پاک ہوجا تا ہے جسطرح اسکی ماں نے اسے جنا تھا ” {سنن الترمذی : {صحیح الترغیب 1/197} بروایات عبد اللہ بن عباس }
ھ – صدقۃ و خیرات :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”كل امرئ في ظل صدقته حتى يفصل بين الناس ” {مسند احمد 4/147 ، مستدرک الحاکم 1/416 بروایت عقبۃ بن عامر }
قیامت کے دن لوگوں کا فیصلہ ہوجانے تک ہر شخص اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا
نیز فرمایا ” والصدقة تطفئ الخطيئة كما يطفئ الماء النار ” {سنن الترمذی :2616 الایمان ،سنن ابن ماجہ : 3973 الفتن ، مسند احمد : 5/248 بروایت معاذ بن جبل }
صدقہ گناہوں کو اسطرح مٹادیتا ہے جسطرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے ۔
پھر اگر یہی صدقہ وقت حاجت و ضرورت ہو تو اسکی اہمیت و فضیلت اور بڑھ جاتی ہے ، خاصکر سردی کے موسم میں جبکہ لوگ سردی سے بچنے کے لئے ، کپڑے ، گرم لباس اور لحاف وغیرہ اور آمدنی میں کمی کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاءکے محتاج ہوتے ہیں تو ایسے ایام میں صدقہ کی فضیلت بڑھ جاتی ہے ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ سب سے افضل عمل کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ادخالك السرور على مؤمن أشبعت جوعته أو كسوت عريه أو قضيت له حاجة ” {الطبرانی الاوسط 6/38 رقم الحدیث 5077 بروایت عمر بن الخطاب }
” سب سے افضل عمل یہ ہے کہ کسی مومن کے دل کو تو خوش کردے ، اسطرح کہ اسکی شرمگاہ کو چھپا دو { یعنی کپڑا پہنا دو }اسکی بھوک کو دور کردو یا اسکی ضرورت پوری کردو” ۔
اگر غور کیا جائے تو سردی کاکے موسم اس فضیلت کے حاصل کرنے کا بہترین موقعہ ہے کیونکہ ہمارے پڑوس میں ، ہمارے علم میں اور ہمارے آس پاس کے علاقے میں کتنے ایسے لوگ ملیں گے جنکے پاس سردی سے بچنے کے لئے کپڑے ہونگے اور نہ لحاف و رضائی انھیں دستیاب ہوگی اور بہت سے لوگ ایسے بھی ملیں گے کہ گھر کا سرپرست بیمار ی یا کمزوری کی وجہ سے کھانے اور علاج کیلئے پیسہ نہ کماپا رہا ہو گاسے بچوں کے کھانے اور اپنے علاج کیلئے پیسوں کی ضرورت ہے ، ایسی صورت میں ہر شخص اپنی استطا عت اور بساط کے مطابق صدقہ کرکے اپنے رب کو راضی کر سکتا ہے اور محشر کے میدان میں اپنے لئے سایہ انتظام کرسکتا ہے ۔
مشہور تابعی اور کتب ستہ کے راوی صفوان بن سلیم رحمہ اللہ ٹھنڈی کے موسم میں ایک شب مسجد نبوی سے باہر نکلے ، دیکھا کہ ایک شخص سردی سے کانپ رہا ہے اور اسکے پاس اپنے آپکو سردی سے بچانے کے لئے کپڑے نہیں ہیں ، چنانچہ انہوں نے اپنی قمیص اتاری اور اس شخص کو پہنادیا ، اسی شب بلاد شام میں کسی شخص نے خواب دیکھا کہ صفوان بن سلیم صرف ایک قمیص صدقہ کرنے کی وجہ سےجنت میں داخل ہو ئے، وہ شخص اسی وقت مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوا ہے اور مدینہ منورہ آکر صفوان بن سلیم رحمہ اللہ کا پتہ دریاف کیا اور ان سے اپنا خواب بیان کیا ۔ {صفۃ الصفوۃ 2/ 154}
و – جہنم کی یاد :
اللہ تبارک و تعالی نے اس دار فانی میں کچھ جگہیں ، بعض موسم اور کچھ حالات ایسے بنائے رکھے ہیں جو اسے آخرت کی یاد دلاتے ہیں ، بعض جگہیں اور زمانے اسے جنت کی یاد دلاتے ہیں اور بعض جگہیں اور زمانے جہنم کی یاد دلاتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ باہر سے آنے والے ایک حاکم و بادشاہ نے جب سرزمین کشمیر پر قدم رکھا اور وہاں کے خوبصورت موسم اور سبزہ زاری کا مشاہد کیا تو بر جستہ کہہ اٹھا ۔
” اگر فردوس بر روئے زمین است ۔ ۔ ہمین است و ہمین است وہمین است ”
اگر کہیں رو ئے زمین پر جنت ہے تو وہ یہی جگہ ہے وہ یہی جگہ ہے ۔
بعینہ اسی طرح سخت سری وگرمی کی کا موسم انسان کو جہنم کی یاد دلاتا ہے کیونکہ ایک مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اس روئے زمین پر سردی و گرمی کی شدت کا اصل سبب جہنم ہے ،لہذا جب انسان کو سخت اور ناقابل برداشت گرمی محسوس ہوتو اسے فورا جہنم کی گر می و تپش یاد آجاتی ہے او ر وہ اپنے رب سے بعجز وعاجزی جہنم سے بچنے کی دعا کرنے لگتا ہے حتی کہ اگر ایمان تازہ ہو معمولی گرمی بھی مومن کو جہنم کی یاد دلاتی ہے ، چنانچہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ : حمام بہت اچھا گھر ہے جسمیں ایک مومن داخل ہوتا ہے تو اپنے میل کچیل صاف کرتا ہے اور اسمیں جہنم سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتا ہے ،{المطالب العالیہ 1/50حافظ کہتے ہیں کہ یہ اثر صحیح ہے }
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ کسی نیک بندے نے غسل کیلئے حمام کا قصد کیا ، اور جب وہ حمام میں داخل ہوئے اور سرپر گرم پانی پڑا تو محسوس کیا کہ یہ پانی کچھ زیادہ ہی گرم ہے لہذا پیچھے ہٹے اور رونا شروع کردیا ، پوچھنے پر وجہ بتلائی کہ مجھے جہنمیوں کے بارے اللہ تعالی کا یہ فرمان یاد آگیا کہ : یصب من فوق رووسہم الحمیم {الحج :19}انکے سر کے اوپر سے کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا {لطائف المعارف 547}
اسی طرح مومن بندہ کو جب سردی اور اسکی شدت محسوس ہو اور اسے تنگ کرے تو اسے زمہریر کی ٹھنڈک یاد کرنا چاہئے کیونکہ جس طرح اللہ تبارک وتعالی اہل جہنم کو سخت اور ناقابل برداشت جلن اور آگ کا عذاب دیگا اسی طرح ناقابل برداشت ٹھنڈکا بھی عذاب دیگا چنانچہ علماء کہتے ہیں کہ جہنم میں ایک طبقہ زمہریر یہ ہے ، جب کافر آگ میں جلتے جلتے تنگ آجائیں گے اور رب سے ٹھنڈے پانی کا مطالبہ کریں گے تو اللہ تبارک وتعالی انھیں جہنم کے طبقہ زمہریریہ میں ڈال دیگا جسمیں سخت سردی کی وجہ سے انکی ہڈیاں پھٹ جائیں گی ۔
لہذا سخت سردی کے موسم میں ایک مومن کو چاہئے کہ وہ جہنم کو کثرت سے یاد کرے اور اس سے بچنے کی دعا کرے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
” ما سأل رجل مسلم الله عز و جل الجنة ثلاثا الا قالت الجنة اللهم أدخله الجنة ولا استجار من النار مستجير ثلاث مرات الا قالت النار اللهم أجره من النار ”{ مسند احمد :3/155 بروایت انس بن مالک }
جو مسلمان بھی تین بار اللہ تعالی سے جنت کا سوال کرتا ہے تو جنت بطور سفارش اللہ تعالی سے عرض کرتی ہے کہ اے اللہ اس بندے کو جنت میں داخل فرمادے اور جو مسلم بندہ اللہ تعالی سے تین بار جہنم سے پناہ چا ہتا ہے اے اللہ تو اسے جہنم سے پناہ دے ۔

زر الذهاب إلى الأعلى