عام مقالات

شان رسالت میں گستاخی کے اسباب؟

ان الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ، من یھدی اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلاہادی لہ واشہد ان لاالہ ا لا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشہد ان محمداً عبدہ ورسولہ وبعد!

یہ عالم انسانیت کا بہت بڑا المیہ اور تاریک تر ین پہلو ہے کہ اللہ کے دشمن، اس کے رسولوں کے دشمن اور انسانیت کے دشمن ہمیشہ سے نبی اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو اپنے طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور آپ کی پاک وصاف شخصیت کو داغدار کرنے کی ناپاک کوشش کرتے رہے ہیں،ابھی حال میں ڈنمارک اور نیروے کی صحافت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق جو غیر اخلاقی حرکت کی اور آپ کی شخصیت وسیرت کو نشانہ بنایا ہے اس سے کڑوروں مسلمانوں کے دل نہ صرف زخمی ہوئے بلکہ زخموں سے چھلنی ہوگئے ہیں، اس موقعہ پر ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی استطاعت بھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دفاع کرے۔

بڑی خوشی کی بات ہے کہ دشمنوں کی اس ناپاک سازش کے خلاف تمام دنیا کے مسلمان یک زبان ہوکر بول پڑے کہ اے لوگو! معاملہ اس حد تک پہنچ جائے کہ تم لوگ ہماری سب سے محبوب ،سب سے محترم شخصیت کو نشانہ بائو،یہ چیز قابل قبول نہیں ہوسکتی،ہر ملک وشہر کے مسلمانوں نے اس میں شرکت کی،عوام نے مظاہرہ کیا، علماء وحکام نے سخت بیان دیئے،خطیبوں نے تقریریں کی،اصحاب قلم نے مقالات لکھے، شعراء نے نعتیں پیش کیں، تاجروں نے اقتصادی بائیکاٹ کیا اور سب نے ایک زبان ہوکر کہا کہ:

جو جان مانگو تو جان حاضر، جو مال مانگوتو مال دیں گے

مگر یہ ہم سے نہ ہوسکے گا کہ نبی کا جاہ وجلال دیں گے

حضرات! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کسی مغربی دانشور نے کہا تھا:”محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) وہ ا کیلے نبی ہیں جن کی پیدائش سورج کی روشنی میں ہوئی ہے۔”

اس قول سے اس کا مقصدیہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطالعہ سے ہر شخص آپ کی شخصیت، تعلیم وہدایات اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں حقیقت پر مبنی معلومات حاصل کرسکتا ہ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے باوجود بھی کچھ لوگوں نے آپ کی شخصیت کو داغدار کرنے کی کوشش کی،آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی متعددوجہیں ہیں جن میں دووجہیں بہت ہی اہم ہیں:

١۔ جہالت اور عدم معرفت: اس ترقی کے دور میں بھی لوگوں کی ایک بھاری تعداد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت، آپ کی شخصیت، آپ کی سیرت اور آپ کی تعلیم وہادیات سے یکسر نابلد ہے،حتیٰ کہ اپنے کو مسلمان کہلانے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد آپ کے بارے میں بہت ہی معمولی معلومات رکھتی ہے،لہٰذا ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ حسب استطاعت اپنے قول وعمل اور تحریر وتقریر کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو عام کرے۔

٢۔ حسد ونفرت: ابتدائے دعوت سے لے کر آج تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اورتعلیم وہدایات پر جو حملے کئے گئے ہیں اس میں اس ذہنیت کا بہت بڑا دخل

اس سے مقابلہ کے لئے طاقت کی ضرورت ہے جو مسلمان حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں کے اوپر فرض عین ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت واپس لانے کی کوشش کریں۔کیونکہ ہر جگہ صلح کی زبان کام نہیں کرتی بلکہ بہت سی جگہ تلوار کی زبان کی ضرورت پڑتی ہے، شاید درج ذیل آیت میں اسی طرف اشارہ ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”لقدارسلنا رسلنا بالبینات وانزلنا معہم الکتاب والمیزان لیقوم الناس بالقسط وانزلنا الحدید فیہ بأس شدید ومنافع للناس ولیعلم اللہ من ینصرہ ورسلہ بالغیب، ان اللہ قوی عزیز” (الحدید:٣٥)

(یقینا ہم نے اپنے رسولوں کی کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں، اور ہم نے لوہے کو اتارا جس میں سخت ہیبت وقوت ہے اور لوگوں کے لئے اور بھی بہت سے فائدے ہیں، اور اس لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد بے دیکھے کون کرتا ہے،بیشک اللہ قوت والا اور زبردست ہے)

چھٹی صدی ہجری میں جب مسلمان سخت خانہ جنگی کے شکار ہوئے تو ان کی اس کمزوری کی وجہ سے جہاں بیت المقدس ان کے ہاتھ سے نکل گیا ،وہیں اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض کا فر طاقتیں مسلمانوں کے ساتھ کئے گئے عہد وپیمان کا لحاظ نہ کرتے ہوئے ان کے قافلوں کو لوٹنا شروع کردیا،چنانچہ میں کرک کے مسیحی حاکم برنس نے مصر سے شام جانے والے مسلمانوں کے ایک قافلے پر حملہ کرکے ان کے مال واسباب کوچھین لیا اور اہل قافلہ کو یہ کہتے ہوئے قتل کردیا کہ :تمہارے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کہاں ہیں انہیں مدد کے لئے پکارو۔

جب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کو یہ خبرملی تو اس سے بہت ہی رنجیدہ ہوئے ، لیکن ادھرخانہ جنگی نے انہیں اس کافر کی طرف متوجہ ہونے کا موقعہ نہیں دیا،لیکن ہوایہ کہ ٥٨١ھ میں ایک بار سلطان صلاح الدین رحمہ اللہ سخت بیمار ہوئے حتیٰ کہ موت سامنے نظرآنے لگی، اس وقت انہوںنے نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مرض سے شفا دیا تو اب میں اپنی ساری طاقت بیت المقدس کو فتح کرنے اور برنس سے بدلہ لینے کے لئے مسخر کردوں گا۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل کیا، سلطان صلاح الدین کو شفا نصیب ہوئی اورجب ٥٨٣ھ میں حطین کا معرکہ پیش آیا جسے فتح بیت المقدس کا پیش خیمہ کہنا چاہئے تو اس میں دیگر مسیحی حاکموں کے ساتھ برنس بھی گرفتار ہوا،اسے سلطان صلاح الدین کے سامنے پیش کیاگیا، سلطان نے اس پر اسلام پیش کیا لیکن اس نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیاتو سلطان صلاح الدین اپنی جگہ سے اٹھے، ہاتھ میں تلوار لی اور گویاں ہوئے: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بدلہ لینے کے لئے میں حاضر ہوں،چنانچہ برنس کو اپنے ہاتھ سے قتل کرکے اس کے سرکو دوسرے مسیحی حکام کے پاس بھیج دیا اور کہلا بھیجا:یہ اس شخص کا بدلہ ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہے۔

یہ دوبڑی اہم وجہیں ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نازیبا حرتک کا سبب بنتی ہیں،اس لئے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ ان دونوں وجہوں کے ازالہ کے لئے کوشاں رہے اور اللہکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دفاع کو اپنا اولین فریضہ سمجھے۔

لیکن یہ بات بھی واضح رہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دفاع اورآپ کی مدد وتائید کا وہ طریقہ جو کسی دوسرے فرد کی تائید کا طریقہ ہوتا ہے وہ قطعاً کافی نہیں ہے بلکہ حق تویہ ہے کہ:

اپنی امت پر قیاس اقوام عالم سے نہ کر

فرد ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

(اقبال)

حضرات! حق تو یہ ہے کہ جلسے جلوس، مظاہرے، شوروشرابا،توڑپھوڑ اور اقتصادی بائیکاٹ جیسے امور جو کسی کی تائید ونصرت کے عصری اسلوب ہوئے ہیں،ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دفاع کا حق ہر گز ادا نہیں ہوسکتا،حالات وظروف کے لحاظ سے وقتی طور پر ان میں سے بعض کا استعمال تو کیاجاسکتا ہے لیکن ان پر اکتفا نہیں کیاجاسکتا، اس لئے کہ ان اسالیب کا وقتی فائدہ ضرور ہوتا ہے لیکن اس میں پائیداری نہیں ہوتی۔

اوریہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان اس نکتے کو بھی سمجھیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دفاع اس لئے نہیں کیا جارہا ہے کہ وہ مسلمانوں کے قائد ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ محمد عبداللہ ہیں،بلکہ آپ کی طرف سے دفاع کی اصل وجہ یہ ہے کہ آپ”رحمة للعالمین”،”محسن انسانیت” اور ”محمد رسول اللہ” ہیں۔

اس لئے جب تک یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ( محمد رسول اللہ) کا معنیٰ کیا ہے ، اس کا مقتضا کیا ہے، اس کی اہمیت کیا ہے اور اس کے منافی چیزیں کیا ہیں، تب تک آپ کی طرف سے دفاع کا صحیح حق ادا نہیں ہوسکتا، اسی طرح یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اس محسن انسانیت اوررحمة للعالمین کے حقوق وواجبات ہمارے اوپر کیا ہیں؟کیا آپ کا حق صرف یہ ہے کہ آپ کے نام پر مظاہرہ کیا جائے، کیا اس سے آپ کا حق ادا ہوجائے گا کہ آپ کے یوم پیدائش پر عید میلادالنبی کے جلسے منعقد کرلئے جائیں،کیاآپ کا حق امت پرصرف اتنا ہیکہ آپ کا نام سن کر اپنا انگوٹھا چوم لیا جائے؟؟ وغیرہ وغیرہ۔

نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق، واجبات کچھ اور ہیں جن کا جاننا اور انہیں عملی جامہ پہنانا ہرمسلمان کا فرض ہے ، آج ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر شور و شرابا تو خوب کرتے ہیں لیکن اپنی عملی زندگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہزاروں سنتوں کو قتل کرتے رہتے ہیں ، لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کو پہچانے اور اسے اپنی زندگی میں اپنا کر سعادت داریں حاصل کرے ۔

کی محمد سے وفا تو نے ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ۔

وصلی اللہ علی نبینا محمدوعلی آلہ وبارک وسلم

{ ماخوذ از : “کتاب حقوق مطفی ” ازقلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ }

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى