شش عیدی روزے — فضیلت وحکمت
عَنْ أَبِى أَيُّوبَ الأَنْصَارِىِّ رضى الله عنه أَنَّهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ : مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ . صحیح مسلم :1164 الصیام،سنن ابوداود :2433الصوم، سنن الترمذی:759 الصوم
ترجمہ : حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے اسکے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ زمانے بھر روزہ رکھنے کے مانند ہے ۔{ صحیح مسلم ، ابو داود ،الترمذی }
تشریح : مسلمانوں کو انکے نیک اعمال پر اللہ تبارک و تعالی اپنےفضل وکرم سے کم از کم دس گنااجر عطافرماتا ہے ، (مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَن جَاء بِالسَّيِّئَةِ فَلاَ يُجْزَى إِلاَّ مِثْلَهَا وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ) ۔ الانعام:160
جو شخص نیک کام کرے گا اسکو اسکے دس گناملیں گے اور جو شخص برا کام کرے گا اسکو اسکے برابر ہی سزاملے گی اور ان لوگوں پر ظلم نہ ہوگا ۔
اسی قاعدے کے مطابق ایک مہینے رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اور اسکے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھ لئے جائیں تو یہ دو مہینوں کے برابر ہو گئے ، یوں گویا رمضان کے بعد شوال کے چھ {شش عیدی }روزے رکھ لینے والا پورے سال روزہ رکھنے کے اجر کا مستحق ٹھہرا ، دوسرے لفظوں میں اس نے پورے سال کے روزے رکھے اور جس کا یہ مستقل معمول رہا تو وہ ایسے ہے جیسے اس نے پوری زندگی فرض روزے کے ساتھ گزاری ،اس اعتبار سے یہ شش عیدی روزے بڑی اہمیت کے حامل ہیں ،گو انکی حثیت نفلی روزوں ہی کی ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تبارک وتعالی نے نیکی کابدلہ دس گنا رکھا ہے ، اسطرح {رمضان کا} ایک مہینہ دس مہینوں کے برابر ٹھرا اور عید الفطر کے بعد {شوال کے }چھ روزے {دومہینوں کے برابر ہیں ،اس طرح} ایک سال پورا ہوگیا۔ {صحیح ابن خزیمہ :2615،النسائی الکبری:2861}
یہ چھ روزے متواتر رکھ لئے جائیں یا ناغہ کرکے دونوں طرح جائز ہیں تاہم شوال کے مہینے میں رکھنے ضروری ہیں ،اسی طرح جنکے فرض روزے بیماری یاسفر وغیرہ یا کسی اور شرعی عذر کی وجہ سے رہ گئے ہوں انکے لئے اہم یہ ہے کہ پہلے وہ فرض روزوں کی قضا کریں ۔
رمضان المبارک کے بعد شش عیدی روزے رکھنے کے متعدد فائدے علماء نے ذکر کیا ہے، جیسے :
{1} رمضان المبارک کے بعد شش عیدی روزے رکھ لینے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پورے سال فرض روزہ رکھنے کا اجر ملتا ہے ۔جیسا کہ ابھی گزرا ہے،
{2} رمضان سے قبل وبعد شعبان وشوال کے روزے فرض نماز سے قبل وبعد والی موکدہ سنتوں کے مشابہ ہیں جنکا فائدہ یہ ہے کہ فرض عبادتوں میں جو کمی واقع ہوئی ہے قیامت کے دن سنتوں سے اس کمی کو پورا کیا جائے گا جیسا کہ بہت سی حدیثوں میں اسکا ذکر وارد ہے {دیکھئے سنن الترمذی:413}
اور یہ بھی امر واقع ہے کہ ہم میں سے ہرشخص سے روزے کے حقوق میں کوتاہی ہوتی ہے ، کوئی اپنی نظر کی حفاظت نہیں کرپاتا کسی کو زبان پر قابو نہیں رہتا وغیرہ وغیرہ ۔
{3} رمضان کےروزےرکھ لینے کے بعد شش عیدی روزے رکھنا اور شوال کے روزوں کا اہتمام کرنا رمضان کے روزوں کی قبولیت کی ایک اہم علامت ہے ،کیونکہ جب اللہ تعالی بندے کی کسی نیکی کو قبول فرماتا ہے تو اسے مزید نیکی کی تو فیق بخشتا ہے جس طرح اگر کوئی شخص کسی کے یہاں مہمان ہو پھر اگر رخصتی کے وقت میزبان دوبارہ آنے کی دعوت دے اور اس پر اصرار کرے تو یہ اسکا مطلب ہے کہ مہماں کی آمدپر اسے خوشی اور اسکی آمد قبول ہے، اسی طرح اگر ایک نیکی کے بعد بندے کو اسی قسم کی یا کسی اور قسم کی نیکی کی توفیق مل جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسکی یہ نیکی اللہ تعالی کی بارگاہ میں شرف قبولیت سے سرفراز ہوئی ہے جسطرح کہ اگر کوئی شخص نیک عمل کرنے کے بعد پھر گناہ کے کام کرنے لگے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اسکا یہ نیک عمل اللہ تعالی کے نزدیک مردود ہے (إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ ) اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز بےحیائی وبرائی کے کام سے روکتی ہے ۔
{4} رمضان المبارک سے متعلق یہ ارشاد نبوی ہے کہ :”ایک رمضان دوسرے رمضان تک کے گناہوں کا کفارہ ہے”{صحیح مسلم } نیز” جس نے ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھ لیا اسکے تمام ماسبق گناہ معا ف کردئے گئے “{صحیح بخاری ومسلم } اور روزے دار عید کے دن بے حساب اجر سے نوازے جاتے ہیں {ان شاء اللہ تعالی}لہذایہ عظیم الہی نعمت اس بات کی حقدار ہے کہ اس پر باری تعالی کا شکر اداکیا جائے جسطرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں قدم جب طول قیام کی وجہ سے پھٹ جاتے تو مائی عائشہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا :آپ اتنی مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالی نے آپ اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دئے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا :کیا میں اللہ تعالی کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟{صحیح بخاری ومسلم } معلوم ہوا کہ گناہوں کی معافی بندے سے شکریہ کا مطالبہ کرتی ہے ، اسی طرح رمضان المبارک کے روزوں کے بعد جنکی وجہ سے بندے کے گناہ معاف ہوئے ہیں شوال کے روزے رکھنا اس عظیم نعمت پر اللہ تعالی کا شکریہ اداکرنا ہے اسکے برخلاف رمضان کا مہینہ گزرتے ہی دوبارہ گناہوں کی طرف پلٹ آنا ان بدبخت لوگوں میں شامل ہونا ہے جن سے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے : (أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَةَ اللّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ(28) جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ(29) {ابراہیم}
کیا آپ نے انکی طرف نظر نہیں ڈالی جنھوں نے اللہ تعالی کی نعمت کے بدلے ناشکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا ،یعنی جہنم میں جسمیں یہ سب جائیں گے جوبدترین ٹھکانہ ہے ۔
{5} رمضان المبارک کے بعد شوال اور اسکے بعد کے مہینوں میں نیک عمل خاصکر وہ نیک اعمال جنکا رمضان المبارک میں خصوصی اہتمام ہوتا ہے جیسے: روزہ ،قیام اللیل ،تلاوت قرآن ،اور صدقہ وغیرہ کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ بندہ جب تک زندہ ہے اسکے نیک اعمال کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ{الحجر :99}اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں ،یہاں تک آپکو موت آجائے ،
اور اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب عمل یہ ہے کہ اس پر مداومت کی جائے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اللہ تعالی کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کیا ہے ؟آپ نے فرمایا :جو عمل برابر کیا جائے خواہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو {صحیح بخاری ومسلم }
لہذا رمضان کے بعد شش عیدی روزوں کا اہتمام کا معنی یہ ہے کہ رمضان گزر جانے کے بعد بھی بندہ اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہے ، کسی بزرگ نے کیا خوب کہا کہ وہ لوگ بہت ہی برے ہیں جو اللہ تعالی کے حق کو صرف رمضان میں پہچانتے ہیں حلانکہ اللہ تعالی کے نیک بندے پورے سال اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں {لطائف المعارف}
فوائد :
1 – شش عیدی روزوں کی اہمیت کہ رمضان کے بعد انکا اہتمام کرنے سے پورے سال فرض روزہ رکھنے کا اجر ملتا ہے ۔
2 – نیکی کے بعد نیکی اللہ تعالی کے نزدیک نیکی کی قبولیت کی علامت ہے ۔
3 – نیکی کے بعد برائی اس نیکی کے اجرکو برباد کردیتی ہے ۔
ختم شدہ