سفر میں سنن مؤکدہ وغیر مؤکدہ کا حکم
مسافر کونسی سنت ادا کرے اور کونسی سنت چھوڑے ایک وضاحتی مضمون
قارئین کرام : عمومی طور پر عامۃ المسلمین کے درمیان یہ سوال پایا جاتا ہے کہ دوران سفر ایک مسافر فرض نمازوں کے قصر کے ساتھ دوسری سنن ونوافل نمازیں ادا کریگا یا نہیں ، اس بارے میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ھمیں کیا بتلاتی ہے ؟ علماء کے کیا اقوال ہیں ، اسی بات کی وضاحت کیلئے ذیل میں چند سطور تحریر کی جارہی ہیں ، انشاء اللہ جو ہمارے سوالی ذہن کو مطمئن کردینگی ۔
حقیقت یہ ہیکہ مسافر دوران سفر فرض نمازیں قصر کریگا اور بعض سنن مؤکدہ نہیں پڑھیگا جیسے ظہر سے پہلے کی چار رکعت، اسکے بعدکی دو رکعت ، اسی طرح مغرب اور عشاءکے بعد کی دودو رکعتیں ، اسکے علاوہ باقی ساری سنن ونوافل وہ پڑھ سکتا ہے ،جیساکہ خود آپ r سے فجر کی سنت کی ادائیگی ثابت ہے ، صحيح مسلم ميں ابو قتادہ رضي اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سفر ميں فجر كى سنت موكدہ ادا كيا كرتے تھے. صحيح مسلم ( 680 )
اور اسى طرح يہ بھى ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فتح مكہ كے موقع پر چاشت كى نماز آٹھ ركعت ادا كى تھي صحيح بخارى ( 357 ) صحيح مسلم ( 336 )
اور يہ بھى ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سفر ميں نماز وتر ادا كيا كرتے تھے. صحيح بخارى ( 1000)
چنانچہ ایک بہت بڑے عالم شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى اس مسئلہ میں بیان کرتے ہيں کہ :
" رہا سنن راتبہ و موكدہ سنتوں كا مسئلہ، تو واضح رہے کہ ميں نے حدیثوں ميں پائے جانے والے نوافل پر غور وفكر كيا تو مجھے اس حقیقت سے آگاہی ہوئی كہ ظہر ، مغرب اور عشاء كى موكدہ سنتيں ادا نہيں كى جائينگى. ليكن ان كے علاوہ باقى سنتيں اور نوافل ادا كيے جائينگے، مثلا فجر كى سنتيں، اور وتر، اور قيام الليل اور چاشت كى نماز، اور تحيۃ المسجد، اس طرح باقى نوافل مطلقہ ادا كی جائينگی" ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 15 / 258 )
اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے سفر ميں موكدہ سنتيں ادا كرنے والے شخص پر انكار كيا اور اسے نا پسند فرمایا،چنانچہ بخارى اور مسلم ميں حفص بن عاصم بن عمر بن خطاب رحمہ اللہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں مكہ كے راستے ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے ساتھ تھا تو انہوں نے ہميں ظہر كى دو ركعت پڑھائی، پھر وہ اپنے پڑاؤ والى جگہ كى جانب آئے اور ہم بھى ان كے ساتھ تھے حتى كہ وہ اپنى جگہ ميں آكر بيٹھ گئے اور ہم بھى ان كے ساتھ بيٹھ گئے، پھر وہ نماز والى جگہ كى طرف متوجہ ہوئے اور كچھ لوگوں كو كھڑے ديكھا تو كہنے لگے: يہ لوگ كيا كر رہے ہيں ؟ ميں نے كہا: وہ نفلى نماز ادا كر رہے ہيں، تو انہوں نے فرمايا: اگر مجھے سنتیں پڑھنی ہوتی تو نماز مكمل كرتا، ميرے بھتيجھے ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ سفر كيا اور ان كى صحبت ميں رہا ليكن آپ نے دو ركعت سے زيادہ نہيں پڑھی حتى كہ اللہ تعالى نے ان كى روح قبض كر لى اور ميں نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى بھى صحبت اختيار كى تو انہوں نے بھى دو ركعت سے زيادہ ادا نہيں كى حتى كہ اللہ تعالى نے آپ کی روح قبض كر لى، اور ميں عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ بھى رہا ، انہوں نے بھى دو ركعت سے زيادہ نہيں پڑھی حتى كہ اللہ تعالى نے ان كى روح قبض كر لى، پھر ميں عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ رہا تو انہوں نے بھى دو ركعت سے زيادہ نہيں پڑھی حتى كہ اللہ تعالى نے ان كى روح قبض كر لى، اور اللہ تعالى كا فرمان ہے: ﴿لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة﴾ يقينا تمہارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بہترين نمونہ ہيں.
صحيح بخارى ( 1102 ) صحيح مسلم ( 689 )
واللہ اعلم بالصواب .