ماہ صفر منحوس نہیں ہے
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : لا عدوى ولا طيرة ولا صفر ولا هامة ، فقال أعرابي : يا رسول الله ! فما بال الإبل تكون في الرمل كأنها الظباء فيخالطها البعير الأجرب فيجربها ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فمن أعدى الأول .( صحيح البخاري : 5770 ، الطب / صحيح مسلم : 2220، الطب )
ترجمہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بیماری کا کسی دوسرے کو لگ جانا ، بدشگونی لینا ، ماہ صفر کا منحوس ہونا اور الو کا منحوس ہونا کوئی چیز نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو سن کر ایک صحرا نشین نے کہا : اے اللہ کے رسول ، اگر بیماری کا کسی دوسرے کو لگ جانا کوئی چیز نہیں ہے تو کیا وجہ ہے کہ اونٹ کے ریوڑ صحرا میں رہتے ہیں وہ اس طرح صاف ستھرے اور نشیط ہوتے ہیں گویا کہ ہرن ہیں ، لیکن ان میں ایک ایسا اونٹ شامل ہوجاتا ہے جو جرب { خارش } کی بیماری میں مبتلا ہوتا تو پورے ریوڑ کو خارش زدہ کردیتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو یہ بتلاو کہ پہلے اونٹ کو کس نے خارش زدہ کیا ہے ؟{ بخاری و مسلم }
تشریح : اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی ہی ہر خیر و شر کاخالق ہے ، سبب اور مسبب کو اس نے پیدا کیا ہے ، چنانچہ اس نے تریاق کو پیدا کیا ہے اور زہرہلال کا خالق بھی وہی ہے ، اسی نے صحت کو پیدا کیا ہے اور وہی بیماری کا خالق ہے ، اسی نے بیماری کا علاج بھی پیدا کیا اور بیماری کے اسباب کا خالق بھی وہی ہے ، اسی نے آگ بھی پیدا کی ہے اور وہی اس کے اندر جلانے کی صلاحیت کا خالق بھی ہے ، لیکن قدیم زمانے سے یہ چلا آرہا ہے کہ بہت سے لوگ کم علمی ، کمزور ایمانی اور خالق حقیقی اور مالک کل پر توکل و بھروسہ نہ کرنے کے سبب ، اللہ تعالی کی پیدا کردہ خیر پر اس قدر بھروسہ کرلیتے ہیں گویا کہ خود اسی کے اندر نفع پہنچانے کی پوری صلاحیت موجود ہے اور اس خیر کے مالک حقیقی کو بھول جاتے ہیں کہ اگر وہ نہ چاہے تو یہ خیر تم تک نہیں پہنچ سکتا ، اسی طرح شر سے اس قدر خائف رہتے ہیں کہ گویا یہی ان کے ہر قسم کے ضرر و نقصان کا مالک ہے اور اس شر کے خالق حقیقی کو بھول جاتے ہیں کہ اگر وہ چاہ لے تو یہ شر انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ، مذکورہ بالا حدیث میں اس غلط عقیدہ کی تصحیح کی گئی ہے ، چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں چار چیزوں کے متعلق اہل جاہلیت کے عقیدہ کی تصحیح کی ۔
[1] بیماری کا کسی دوسرے کو لگ جانا کوئی چیز نہیں : اس میں اس امر کی نفی نہیں ہے کہ بعض متعدی بیماریاں ایک مریض سے دوسرے تندرست شخص تک منتقل نہیں ہوتیں کیونکہ یہ تو ایک بدیہی چیز ہے اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس کا اونٹ بیمار ہو اسے نہیں چاہئے کہ اپنے اونٹ کو ان اونٹوں کے پاس لے جائے جو تندرست ہیں ۔ [ صحیح بخاری ومسلم بروایت ابو ہریرہ ]
نیز فرمایا : کوڑھی سے ایسے ہی بھاگو جیسے کہ شیر سے بھاگا جاتا ہے [ صحیح بخاری و احمد بروایت ابو ہریرہ ] ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد جاہل ، مشرک اور بیمار عقیدہ لوگوں کے اس باطل خیال کی تردید ہے کہ کسی بیماری میں دوسرے تک پہنچ جانے کی اپنی کوئی صلاحیت ہے بلکہ یہ بھی مشیت الہی کے تابع ہے ورنہ اگر بیماری ہی اصل سبب ہوتی تو پھر جس گھر کے ایک فرد کو کوئی متعدی بیماری لگ جائے تو اس گھر اور ان سے ملنے جلنے والے ہر فرد کو وہ بیماری لگتی جائے لیکن ایسا نہیں ہوتا ، حدیث کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرف رہنمائی فرمائی ہے ۔
[2] بدشگونی کوئی چیز نہیں ہے : کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو بجائے خود منحوس ہو ، منحوس وہی ہے جسے اللہ تعالی منحوس پیدا کرے ، کوئی پرندہ ، کوئی دن اور ہفتہ منحوس نہیں بلکہ یہ ساری مخلوقات حکم الہی کے تابع ہیں ، اگر کسی چیز میں نحوست پیدا ہوتی ہے تو وہ اللہ تعالی کے حکم کی نافرمانی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ، نیز بعض غیر مرغوب صفات تاریک گھر وغیرہ ، لیکن یہ نہیں ہے کہ یہ چیزیں ان معنی میں منحوس ہیں کہ ان کو دیکھ کر ، یا ان کے سامنے سے گزرجانے سے یا ان کی آواز سن لینے سے کسی قسم کے شر کی توقع کی جائے ۔
[3] ماہ صفر منحوس نہیں : تمام مہینوں اور دنوں کا خالق اللہ تعالی ہے اس نے اپنی حکمت و عدل سے یہ تو کیا ہے کہ بعض دنوں کو بعض دنوں پر اور بعض مہینوں کو بعض مہینوں پر فضلیت دی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ کسی مہینے کو منحوس ٹھہرایا ہو ، بلکہ جس مہینہ میں اللہ تعالی کے فرمان بجالائے جائیں وہ بندہ کے لئے مبارک اور جس مہینہ میں اللہ کی نافرمانی کی جائے وہ بندے کے لئے منحوس ہے ، اس لئے بجائے اس کے کہ بندہ کسی مہینہ کو منحوس تصور کرے اسے چاہئے کہ خود اپنی اصلاح کی کوشش کرے ، اس طرح ایک ایسا مہینہ جسے اللہ تعالی کسی فضیلت سے نہیں نوازا اس کے لئے مبارک بن جائے گا ۔
[4] الّو منحوس نہیں ہوتا : الّو بھی اللہ تعالی کی ایک مخلوق ہے ، اللہ تعالی نے اسے کسی بڑی حکمت کیلئے پیدا فرمایا ہے ، اس کا نام اللہ تعالی نے الّو نہیں رکھا بلکہ یہ لوگوں کی اپنی غلطی ہے کہ اسے الو کہتے ہیں ، اسے اللہ تعالی نے منحوس بھی پیدا نہیں فرمایا کہ اس کی آواز یا صورت کو دیکھ کر بندہ اپنے اندر انقباض محسوس کرے اور یہ سمجھے کہ ہمارے گھر کوئی مصیبت ضرور آنے والی ہے ، یہ لوگوں کی جہالت اور بدعقیدگی ہے کہ اللہ کی تسبیح و تحمید بیان کرنے والی ایک مخلوق الو کو منحوس کہا جارہا ہے ۔
ختم شدہ