سجدہ ؟؟؟
حديث نمبر : 44
بتاریخ : 5/6 جمادی الآخرۃ 1429ھ م: 10/9جون 2008
عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما قال : قال النبي r ، أمرت أن أسجد على سبعة أعظم على الجبهة ( وأشار بيده على أنفه ) واليدين والركبتين وأطراف القدمين .
( صحيح البخاري : 812 ، الأذان / صحيح مسلم : 490، السجود )
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی r نے ارشاد فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں [ جوڑں ] پر سجدہ کروں ، پیشانی پر [ ساتھ ہی آپ r نے اپنی ناک کی طرف اشارہ کیا ] دونوں ہاتھوں پر ، دونوں گھٹنوں پر اور دونوں پیروں پر ۔
تشریح : سجدہ نماز کا مغز اور اسکا بہت بڑا رکن ہے ، بندہ اپنے رب کے قریب سب سے زیادہ سجدہ ہی کی حالت میں ہوتا ہے کیونکہ سجدہ میں کمال عبودیت ، مکمل عاجزی اور انکساری کی حد ہے ، اس لئے مسلمان جب سجدہ میں جاتا ہے تو باربار اللہ تبارک وتعالی کی بلندی وبڑائی کا اقرار” سبحان ربی الاعلی ” کہتے ہوئے کرتا ہے نماز کا یہی ایک رکن ہے جو ایک رکعت میں دو بارفرض کیا گیا ہے ، سجدہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کیلئے سجدہ کرنا جائز نہیں ہے خواہ بطور عبادت نہیں بطور تعظیم ہی کیوں نہ ہو،
سجدہ ہی وہ عبادت ہے کہ جب شیطان آدم کی اولاد کو سجدہ کرتے دیکھتا ہے تو واویلا مچاتا اور اپنے سر پر دھول ڈالتا ہوا بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور چیختا وچلاتا ہے کہ ہائے میری بربادی کہ ابن آدم کو سجدہ کا حکم دیا گیا اس نے حکم بجا لایا تو اسے جنت ملی اور مجھے سجدہ کا حکم دیا گیا اور میں نے نافرمانی کی تو مجھے دوزخ میں ڈالا جائے گا ، سجدہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ سجدہ میں کی گئی دعا شرف قبولیت کی زیادہ مستحق ٹِھہرتی ہے ، اس لئے اللہ تبارک وتعالی قرآن مجید میں ایسے بندوں کی تعریف بیان کرتا ہے جو حکم الہی کی تابعداری میں فورا سجدہ ریز ہوجاتے ہیں ،اسی لئے جادوگروں نے جب حضرت موسی علیہ السلام کی حقانیت کا
مشاہدہ کرلیا تو فورا اللہ کے لئے سجدہ ریز ہوگئے ، خود نبی کریم r اپنے صحابہ کو سجدہ کا اہتمام کرنے کا حکم دیا کرتے تھے ، ایک بار آپ r نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا : جب بھی کوئی بندہ اللہ تعالی کیلئے ایک سجدہ کرتاہے تو اللہ تعالی اسکے بدلے اسکے لئے ایک نیکی لکھتا ہے اس کے ایک گناہ کو مٹاتا ہے اور اسکے ایک درجہ کو بلند کرتا ہے اس لئے تم لوگ کثرت سے سجدہ کیا کرو [ سنن ابن ماجہ ، عن عبادہ ]
سجدہ کی اسی اہمیت کے پیش نظر نبی r نے سجدہ کے بہت سے آداب بیان فرمائے ہیں جنکا اہتمام کرلینے کے بعد ہی بندہ ان فضیلتوں کا حقدار بن سکتا ہے ، ان میں سے کچھ آداب تو واجبی ہیں اور کچھ آداب سنن و مستحبات میں داخل ہیں ، مذکورہ حدیث میں سجدہ کے وجوبی آداب میں سے ایک بڑا اہم ادب بیان ہوا ہے جس میں کوتاہی کرنے سے بندے کا سجدہ اللہ تعالی کے نزدیک نہ مقبول ہوگا اور نہ ہی صحیح سجدہ متصور ہوگا ، الا یہ کہ کوئی عذر اور مجبوری ہو یعنی ضروری ہے کہ جب بندہ سجدہ کرے تو اسکی سات ہڈیاں یا سات اعضاء زمین پر ٹکیں :
۱- پیشانی اور اسکے ساتھ ساتھ ناک بھی ۔ ۲-۳- دونوں ہتِھیلیاں ۔ ۴-۵- دونوں پیر ۔ ۶-۷- دونوں گھٹنے ۔
۔۔۔۔۔ ان اعضاء میں سے اگر کوئی عضو زمین پر نہ پڑا ہو تو سجدہ کرنا صحیح نہ ہوگا ۔
فوائد :
۱- سجدہ کی اہمیت وفضیلت ۔
۲- ضروری ہے کہ سجدہ سات اعضاء پر ہو ۔
۳- مسلمان کو چاہئے کہ نماز کے تمام اعمال میں سنت نبوی کو مد نظر رکھے ۔ ۴- سجدہ کے بعض دیگر آداب یہ ہیں : سجدہ میں اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو پھیلا ئے اور ایک دوسرے سے ملائے رکھے ، کہنیوں کو نہ زمین پر رکھے اور نہ اپنے گھٹنوں پر ٹیکے ، پیشانی اور ناک کو زمین پر جمادے ، بازوں کو پہلو سے دور رکھے ، دونوں پیروں کو ملائے رکَھے اور حتی الامکان انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہو ، سجدہ اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان میں کرے وغیرہ ۔