رب سے دس سوال
حديث نمبر : 46
بتاریخ : 19/20 جمادی الآخرۃ 1429ھ م: 24/23جون 2008
عن ابن عمر رضي الله عنهما : قلما كان رسول الله r يقوم من مجلس ، حتى يدعو بهؤلاء الدعوات لأصحابه : اللهم أقسم لنا من خشيتك ما يحول بيننا وبين معاصيك ، ومن طاعتك ما تبلغنا به جنتك ومن اليقين ما تهون به علينا مصيبات الدنيا ، ومتعنا بأسماعنا وأبصارنا وقواتنا ما أحييتنا واجعله الوارث منا ، واجعل ثأرنا على من ظلمنا ، وانصرنا على من عادانا ، ولا تجعل مصيبتنا في ديننا ولا تجعل الدنيا أكبر همنا ولا مبلغ علمنا ولا تسلط علينا من لا يرحمنا
( سنن الترمذي : 3502 ، الدعوات / مستدرك الحاكم : ج : 1، ص: 528 )
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ کم ہی ایسا ہوتا کہ رسول r ان کلمات کو کہے بغیر کسی مجلس سے اٹھتے : اللھم اقسم لنا ۔۔۔۔۔۔ الخ اے اللہ اپنے خوف کا اتنا حصہ ہمیں عطا فرمادے جو ہمارے اور تیری معصیت کے درمیان حائل ہوجائے اور اتنی اطاعت وعبادت کی توفیق دے جو ہمیں تیری جنت کا مستحق بنادے اور اتنا یقین عنایت فرما کہ جس کے ذریعہ سے تو ہم پر دنیا کی مصبتیں ہلکی کردے ، اے اللہ جب تک تو ہمیں زندہ رکھے ہمیں اپنے کانوں ، اپنی آنکھوں اور قوت سے نفع اٹھانے کا موقعہ عطا فرما اور اسکو ہمارا وارث بنا [ یعنی یہ حواس اس طرح باقی رہیں جیسے وارث باقی رہتا ہے ] اور تو ہمارا بدلہ اور انتقام ان سے لے جو ہم پر ظلم کریں اور ان لوگوں کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما جو ہم سے دشمنی رکھیں اور ہمیں ہمارے دین کے بارے میں آزمائش میں نہ ڈال ، اور دنیا ہی کو ہماری سب سے بڑی سوچ اور ہمارا مبلغ علم نہ بنا اور ہم پر ایسے لوگوں کو مسلط نہ فرما جو ہم پر رحم نہ کریں ۔
تشریح : انسان اپنے تمام امور میں اللہ تبارک وتعالی کا محتاج ہے ، ایک پل کے لئے بھی اسے آسمان وزمین کے رب سے غنا نہیں ہے کیونکہ اس دنیا میں وہی ہوتا ہے جو اللہ تبارک وتعالی چاہتا ہے بغیر اسکی مشیت و ارادہ کے کوئی شخص کوئی بھی کام انجام نہیں دے سکتا ، اسلئے ایک مومن بندہ سے مطالبہ ہے کہ وہ اللہ تبارک و تعالی سے اپنے تمام کاموں میں درستگی اور راست روی کا سوال کرے ، سچ فرمایا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے : اللہ تبارک و تعالی سے ہر چیز مانگو حتی کہ اپنے جوتے کے تسمے کا بھی سوال کرو کیونکہ اللہ تبارک و تعالی اگر کسی چیز کو آسان نہ کرے تو وہ میسر نہیں آسکتی ۔ نبی کریم r سے منقول دعاوں پر اگر کوئی شخص نظر ڈالے تو اسے اندازہ ہوگا کہ آپ rکسطرح اپنے تمام امور میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے تھے ۔زیر بحث حدیث بھی ایک بڑی قیمتی اور مفید دعائے نبوی پر مشتمل ہے ، اللہ کے رسول r کا اسقدر اہتمام کرنا اسکے بہت مفید ہونے کی دلیل ہے ، یہ دعا بڑے عظیم معنوں پر مشتمل ہے اسلئے چاہئے کہ ہر مومن بندہ اسکا اہتمام کرے اور باربار یہ دعا پڑھتا رہے اس دعا میں اللہ کے رسول r نے اللہ تعالی سے دس ایسی چیزوں کا سوال کیا ہے جنکا وجود ایک مومن کے دین ودنیا کے لئے بہت ضروری ہے ۔ [۱] خوف وخشیت : پہلا سوال یہ ہےاے اللہ تعالی ہمارے دل میں اسقدر خوف ڈال دے کہ وہ ہر وقت تیری عبادت ہی کی طرف مائل رہے اور جب کبھی کسی نافرمانی کا خیال دل میں آئے بھی تو فورا تیرا خوف آڑےآجائے
[۲] اطاعت الہی : اللہ تعالی کی اطاعت ہی جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ کا سب سے اہم سبب ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ اللہ تبارک وتعالی کی توفیق ورحمت شامل حال نہ رہے ، اسلئے اے اللہ تعالی مجھے عبادت کی توفیق دے اور اس پر میری مدد فرما تاکہ میں تیری جنت میں داخلے کے لائق بنوں ۔ [۳] یقین : جب کسی بندے کو یقین حاصل ہوگا تو اسکا ایمان بھی مکمل ہوگا اور جب ایمان مکمل ہوگا تو یہ جان لے گا کہ ہر چیز اللہ تعالی کی مقرر کردہ تقدیر سے ہے ، وہی نفع ونقصان کا مالک ہے اس کام میں کوئی بھی ذات اسکی شریک نہیں ہے ، نیز اللہ تعالی کا ہر کام حکمت پر مبنی ہے لہذا جب بھی اسے کوئی تکلیف پہنچے گی یا کسی مصیبت سے دو چار ہوگا تو اس سے پریشان نہ ہوگا ، اسلئے سوال ہے کہ اے اللہ تعالی میرے دل کو یقین محکم سے ایسا معمور کردے کہ دنیاوی مصیبت میں ہمیں لذت ملنی لگے ۔
[۴-۵] کان ، آنکھ اور دیگر اعضائے جسمانی کی تاحیات حفاظت :جب تک انسانی اعضاء سلامت نہ رہیں اسوقت تک بندہ صحیح طور پر اللہ تعالی کی عبادت نہیں بجا لا سکتا اسلئے خصوصی طور ان اعضاء کی سلامتی کا سوال ہے تاکہ اپنے خالق کا شکریہ ادا ہوسکے اور اسی پر بس نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ یہ اعضاء زندگی کے آخری لمحہ تک اسکا ساتھ دیتے رہیں ، سننے کی طاقت باقی رہے تاکہ کلام الہی اور دیگر نصائح سے مستفید ہوتا رہے ، آنکھ سلامت رہے تاکہ انفس آفاق میں پھیلی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا رہے اور دیگر اعضاء بھی سلامت رہیں تاکہ قلب وقالب سے اللہ تعالی کا شکریہ ادا کیا جاسکے ۔
[۶] ظالم اور صرف ظالم سے بدلہ : بندہ اللہ تعالی سے سوال کررہا ہے کہ جو اس پر ظلم کرے اس سے میرا بدلہ لے لے کیونکہ بغیر اللہ تعالی کی تائید کے کوئی شخص کسی سے بھی اپنا بدلہ نہیں لے سکتا ، اور اے اللہ تعالی میں یہ چاہتا ہوں کہ میرا بدلہ صرف اس سے لے جو میرے اوپر ظلم کرے البتہ جو میرے اوپر ظلم میں شریک نہ ہو میں اس سے بدلہ نہیں چاہتا ۔
[۷] دشمن پر مدد : اس دنیا میں مومن کے بہت سے مخالفین ہوتے ہیں جو اسے ضرر پہنچانے کے درپے رہتے ہیں جیسے کفار ، منافقین ، اور ان سے پہلے شیطان ملعون ، اگر اللہ تعالی کی مدد شامل حال نہ رہی تو یہ دشمن مومن کو پریشان کرسکتے ہیں اسلئے سوال ہے کہ اللہ تعالی ہر اس شخص پر میری مدد کرے جو دشمنی کی بنا پر ہمیں نقصان پہنچانا چاہیں ۔
[۸] دین محفوظ رہے اس دنیا میں مسلمان کو ابتلا و آزمائش سے سابقہ پڑتا ہے اور اس پر اس سے صبر و احتساب کا مطالبہ ہے لیکن سب سے بڑی و خطرناک مصیبت وہ ہوتی ہے جس سے بندے کے دین کو خطرہ لاحق ہوتا ہے کیونکہ دنیاوی مصیبت موت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے لیکن دینی مصیبت اسکے ساتھ قبر و حشر میں رہتی ہے اسلئے دعا ہے کہ اے اللہ میرے دین و ایمان کو مصیبت سے بچالے اگر مجھے مصیبت آنی ہی ہے تو وہ دنیاوی امور سے متعلق ہی رہے ۔
[۹] دنیاداری سے حفاظت : اللہ تبارک وتعالی نے دنیا کو آخرت کمانے کا ذریعہ بنایا ہے ، لیکن عام طور پر دیکھا یہ جاتا ہے کہ انسان کی تمام کوشش دنیا حاصل کرنے کیلئے ہوتی ہے حتی کہ وہ علم بھی اسی لئے حاصل کرتاہے کہ اسکے ذریعہ دنیا کمائے جب کہ یہ چیز حکمت الہی کے بالکل خلاف ہے بلکہ اللہ تعالی یہ چاہتا ہے کہ بندہ حسب ضرورت حاجت دنیا حاصل کرکے آخرت کی طرف اپنی توجہ مبذول کرے اسی لئے یہ دعا ہے کہ اے اللہ تعالی ہماری ساری کوشش اور ہماری پوری معلومات دنیا ہی کمانے میں صرف نہ ہو ۔
[۱۰] ظالموں کا تسلط : آخر میں اس سوال پر دعا ختم کی گئی ہے کہ اے اللہ ہمارے اوپر ظالموں اور فاسقوں کو غلبہ نہ دے کیونکہ وہ مومن کے بارے میں کسی عہد وپیمان کا لحاظ نہیں رکھتے بلکہ وہ تو اہل خیر کو اس دنیا سے مٹا دینا چاہتے ہیں اسلئے ایسے ظالموں کے تسلط سے ہمیں محفوظ رکھ بلکہ ایسے لوگوں کو ہم پر حاکم بنا جو تیرے بندوں کے بارے میں تیرے عہد وپیمان کا لحاظ رکھیں ۔