ہفتہ واری دروس

معززترین مہمان

حديث نمبر : 47

بتاریخ :26/27 جمادی الآخرۃ 1429ھ م: 01/30جون،جولائی 2008

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَاعَةٍ لَا يَخْرُجُ فِيهَا وَلَا يَلْقَاهُ فِيهَا أَحَدٌ فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ مَا جَاءَ بِكَ يَا أَبَا بَكْرٍ فَقَالَ خَرَجْتُ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْظُرُ فِي وَجْهِهِ وَالتَّسْلِيمَ عَلَيْهِ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَاءَ عُمَرُ فَقَالَ مَا جَاءَ بِكَ يَا عُمَرُ قَالَ الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا قَدْ وَجَدْتُ بَعْضَ ذَلِكَ فَانْطَلَقُوا إِلَى مَنْزِلِ أَبِي الْهَيْثَمِ بْنِ التَّيْهَانِ الْأَنْصَارِيِّ وَكَانَ رَجُلًا كَثِيرَ النَّخْلِ وَالشَّاءِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ خَدَمٌ فَلَمْ يَجِدُوهُ فَقَالُوا لِامْرَأَتِهِ أَيْنَ صَاحِبُكِ فَقَالَتْ انْطَلَقَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا الْمَاءَ فَلَمْ يَلْبَثُوا أَنْ جَاءَ أَبُو الْهَيْثَمِ بِقِرْبَةٍ يَزْعَبُهَا فَوَضَعَهَا ثُمَّ جَاءَ يَلْتَزِمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُفَدِّيهِ بِأَبِيهِ وَأُمِّهِ ثُمَّ انْطَلَقَ بِهِمْ إِلَى حَدِيقَتِهِ فَبَسَطَ لَهُمْ بِسَاطًا ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى نَخْلَةٍ فَجَاءَ بِقِنْوٍ فَوَضَعَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَلَا تَنَقَّيْتَ لَنَا مِنْ رُطَبِهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ تَخْتَارُوا أَوْ قَالَ تَخَيَّرُوا مِنْ رُطَبِهِ وَبُسْرِهِ فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مِنْ النَّعِيمِ الَّذِي تُسْأَلُونَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ظِلٌّ بَارِدٌ وَرُطَبٌ طَيِّبٌ وَمَاءٌ بَارِدٌ فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ لِيَصْنَعَ لَهُمْ طَعَامًا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَذْبَحَنَّ ذَاتَ دَرٍّ قَالَ فَذَبَحَ لَهُمْ عَنَاقًا أَوْ جَدْيًا فَأَتَاهُمْ بِهَا فَأَكَلُوا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ لَكَ خَادِمٌ قَالَ لَا قَالَ فَإِذَا أَتَانَا سَبْيٌ فَأْتِنَا فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَأْسَيْنِ لَيْسَ مَعَهُمَا ثَالِثٌ فَأَتَاهُ أَبُو الْهَيْثَمِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَرْ مِنْهُمَا فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ اخْتَرْ لِي فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْمُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ خُذْ هَذَا فَإِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي وَاسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوفًا فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ إِلَى امْرَأَتِهِ فَأَخْبَرَهَا بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ امْرَأَتُهُ مَا أَنْتَ بِبَالِغٍ مَا قَالَ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا أَنْ تَعْتِقَهُ قَالَ فَهُوَ عَتِيقٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا وَلَا خَلِيفَةً إِلَّا وَلَهُ بِطَانَتَانِ بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَاهُ عَنْ الْمُنْكَرِ وَبِطَانَةٌ لَا تَأْلُوهُ خَبَالًا وَمَنْ يُوقَ بِطَانَةَ السُّوءِ فَقَدْ وُقِيَ

قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَذَكَرَ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَحَدِيثُ شَيْبَانَ أَتَمُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ وَأَطْوَلُ وَشَيْبَانُ ثِقَةٌ عِنْدَهُمْ صَاحِبُ كِتَابٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَيْضًا

( صحيح مسلم : 2038 ، الأشربة / سنن الترمذي : 2369 ، الزهد )

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار اللہ کے رسول r اپنے گھر سے ایسے وقت میں باہر نکلے کہ اس وقت نہ تو گھر سے باہر نکلتے تھے اور نہ ہی کسی سے ملاقات کرتے تھے ، اسی درمیان آپ کے پاس ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آگئے ، آپ نے پوچھا : اے ابو بکر اس وقت کیسے آئے ؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اللہ کے رسول r سے ملاقات ، آپ سے سلام اور آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھنے کیلئے نکلا ہوں ، ابھی وہ دونوں تھوڑی ہی دیر بیٹھے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے ، آپ r نے سوال کیا : اے عمر اس وقت کیسے آگئے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اے اللہ کے رسول بھوک سے پریشان ہوکر باہر آیا ہوں ، آپ r نے فرمایا : مجھے بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہورہا ہے [ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آپ r نے فرمایا : اس ذات کی قسم جسکے ہاتھ میں میری جان ہے جس وجہ سے تم لوگ گھر سے باہر نکلے ہو میرے گھر سے نکلنے کی وجہ بھی وہی ہے ] پھر آپ نے فرمایا : اٹھو چلو ابو الھیثم بن النیھان انصاری کے پاس چلتے ہیں ، ابو الھیثم بن النیھان رضی اللہ عنہ بہت زیادہ کھجوروں اور بکریوں والے شخص تھے ، البتہ انکے پاس کوئی خادم نہ تھا ، جب انکے گھر پہنچے تو وہ گھر پر موجود نہیں تھے ، انکے بیوی سے پوچھا کہ آپ کے شوہر کہاں ہیں ؟

اس نے جواب دیا : ہمارے لئے میٹھاپانی لانے گئے ہیں ، وہ عورت آپ کو دیکھکر بہت خوش ہوئی آپ کو خوش آمدید کہا اور دروازہ کھول دیا ، اتنے میں حضرت ابو الھیثم رضی اللہ عنہ بھی پانی سے بھرا ہوا مشک لے کر آگئے ، اللہ کے رسول rاور آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دیکھ کر باغ باغ ہوگئے ، پانی کے مشک کو جلدی سے نیچے اتارا ، آپ r سے چمٹ گئے ، فداہ ابی و امی کہکر آپ کا استقبال کیا اور کہنے لگے : اللہ کا شکر ہے کہ آج مجھ سے بہتر مہمانوں والا کوئی دوسرا نہیں ہے ، پھر آپ r کو لیکر اپنے باغیچہ میں ایک طرف گئے ایک چٹائی بچھا کر آپ کو بیٹھا دیا اور جاکر کھجور کے ایک درخت سے ایک گچھا توڑ لائے، آپ r نے فرمایا : یہ پورا گچھا لانے کی کیا ضرورت تھی ، صرف اس میں سے پکی کھجوریں ہی کیوں نہ توڑ لائے ؟ انہوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ہم نے سوچا کہ آپ لوگوں کو جو پسند ہو اسے کھالیں خواہ پکی ہوئی کھجور کھائیں یا ادھ پکی ، چنانچہ آپ r اور آپ کے دونوں ساتھیوں نے اسمیں سے جوکچھ جی چاہا پکی ادھ پکی کھجوریں تناول فرمایا اور پانی پیا ، پھر آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ وہ نعمت ہے جس سے متعلق قیامت کے دن تم سے سوال کیا جائے گا ، ٹھنڈا سایہ ، عمدہ لذیذ کھجور اور ٹھنڈا پانی ، پھر ابو الھیثم وہاں سے اٹھے اور آپ کیلئے کھانے کا انتظام کرنے چلے ، آپ r نے فرمایا : کسی دودھ والی بکری کو ذبح نہ کرنا ، حضرت ابوالھیثم نے بکری کا بچہ ذبح کیا اور اسے تیار کرکے آپ r کے پاس لے کر آئے ، آپ r اور آپ کے ساتھیوں نے کھانا تناول فرمایا ۔ پھر آپ r نے فرمایا : کیا تمہارے پاس کوئی خادم نہیں ہے ، انہوں نے نفی میں جواب دیا ، آپ نے فرمایا : تو جس وقت میرے پاس کچھ خادم آئیں تو آجانا ، چنانچہ ایک بار اللہ کے رسول r کے پاس صرف دو خادم لائے گئے ، ابو الھیثم نے آکر آپ r کو وعدہ یاد دلایا ، آپ نے فرمایا : دونوں میں کسی ایک کا انتخاب کرلو ، انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ہی کسی کا انتخاب کردیں ، آپ r نے ارشاد فرمایا : جس سے مشورہ لیا جائے اسے امانت سے کام لینا چاہئے ، تم اس خادم کو لے لو کیونکہ ہم نے اسے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور دیکھو اس کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرنا ۔

چنانچہ ابو الھیثم اسے لیکر اپنے گھر گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ اللہ کے رسول r نے اسکے بارے میں وصیت کی ہے ، اس عورت نے کہا کہ آپ اللہ کے رسول r کی وصیت کو پورا نہیں کرسکتے مگر یہ کہ اسے آزاد کردیں ، چنانچہ انہوں نے اسی وقت اسے آزاد کردیا [ اور پھر دونوں میاں بیوی بغیر خادمہ کے رہ گئے]

فوائد :

  1. A. اللہ کے رسول اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی تنگ معیشت ۔
  2. مشورہ دینے والے کو امانت داری سے کام لینا چاہئے ۔
  3. نماز کی اہمیت ۔
  4. نیک بیوی کی اہمیت ۔
زر الذهاب إلى الأعلى