عقل مندی
حديث نمبر : 48
بتاریخ : 4/5 رجب 1429ھ م: 08/07جولائی 2008
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله r : من خاف أولج ومن أولج بلغ المنزل ، ألا إن سلعة الله العالية ألا إن سلعة الله الجنة .
( سنن الترمذي : 2450، صفة القيامة ، مستدرك الحاكم ، ج : 4 ، ص: 308 )
ترجمہ : حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول r نے ارشاد فرمایا : جسے دشمن کے حملے کا خوف لاحق ہوا وہ رات کے ابتدائی حصے میں نکل پڑا اور جو رات کے ابتدا میں نکل پڑا وہ کسی پر امن جگہ پر پہنچ جائے گا ، اچھی طرح یاد رکھو ! اللہ تعالی کا سودا بڑا قیمتی ہے اور اللہ تعالی کا سودا جنت ہے ۔
تشریح : دنیا ایک سفر ہے جسمیں ہر انسان اپنی اصل منزل یعنی آخرت کی طرف رواں دواں ہے ، فرق یہ ہیکہ کچھ لوگ برضا ورغبت آخرت کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس منزل کیلئے خاطر خواہ پونجی بھی جمع کررہے ہیں اور کچھ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اس طرف ڈھکیلے جارہے ہیں ، ایک حدیث میں آیا کہ صبح ہوتی ہے تو لوگ دو قسم میں تقسیم ہوجاتے ہیں کچھ لوگ تو ایسا کام کرتے ہیں جس سے وہ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے آزاد کرلیتے ہیں اور کچھ لوگ ایسا عمل کرتے ہیں جس سے وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں ، اسی لئے اللہ کے رسول r فجر کی نماز کے بعد اس دعا کااہتمام کرتے تھے اے اللہ میں آپ سے ایسے علم کا سوال کرتا ہوں جو نفع بخش ہو ، ایسی روزی کا سوال کرتا ہوں جو پاک وحلال ہو اور ایسے عمل کی توفیق کا سوال کرتا ہوں جو تیرے نزدیک مقبول ہو ۔
زیر بحث حدیث میں بھی یہی چیز ایک اور انداز سے بیان ہوئی ہے ، اللہ کے رسول r نے اس انسانی سفر کو ایک مثال سے واضح کیا ہے کہ انسان ایک قافلہ ہے اور شیطان و شہوات اسکے دشمن ہیں ، جب بھی قافلہ کو رات میں کسی دشمن کے حملہ کا خطرہ رہتا ہے تو وہ فورا اس جگہ کو چھوڑ کر کسی پر امن جگہ منتقل ہوجاتا ہے ، اسی طرح انسان کو چاہئے کہ اپنے دشمن شیطان اور نفس سے ہر وقت ہشیار رہنا چاہئے تاکہ اس سے وہ قیمتی چیز جسے اس نے اپنے جان ومال کے ذریعہ خرید لیا ہے وہ ضائع نہ ہونے پائے ، کیونکہ شیطان اس راستے پر بیٹھا ہوا ہے اور انسان کا نفس اور جھوٹی آرزوئیں شیطان کی مددگار ہیں ، اگر وہ اپنے سفر آخرت میں بیدار مغزی سے کام لے
اور اپنے عملوں میں اخلاص کا اہتمام کرے تو وہ شیطان کے مکر وقید سے بھی بچ سکتا ہے اور اسکی مددگار جھوٹی آرزوئیں بھی اسکے راستے کو کھونا کرنے میں ناکام رہتی ہیں ، لیکن اگر اس نے سستی سے کام لیا اور آرزووں اور تمناوں میں اپنے آپ کو الجھائے رکھا تو اسے ناکامی کا منھ دیکھنا پڑیگا ، کیونکہ اللہ تبارک وتعالی اس طویل سفر کے بعد جو منزل رکھی ہے وہ جنت ہے ، یہ بہت ہی گراں اور نہایت ہی قیمتی پوجی ہے جسے معمولی سعی وکوشش سے حاصل نہیں کیا جاسکتا ، جب تک انسان اسکے لئے اپنے جان ومال کی قربانی نہیں دیگا اس قیمتی پوجی جنت کو بھی حاصل نہیں کرسکے گا ، ارشاد باری تعالی ہے :
إِنَّ اللّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللّهِ فَاسْتَبْشِرُواْ بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
( التوبة : 111)
[ ترجمہ ] اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں (اور اس کے) عوض ان کے لیے بہشت (تیار کی) ہے۔ یہ لوگ الله کی راہ میں لڑتے ہیں تو مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں بھی ہیں۔ یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے۔ جس کا پورا کرنا اسے ضرور ہے اور الله سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو۔ اور یہی بڑی کامیابی ہے
فوائد :
- a) اس دنیا میں انسان ایک مسافر ہے ، اسلئے جسطرح سے مسافر دوران سفر ہشیار اور چاک و چوبند رہتا ہے اسی طرح انسان کو اس دنیا میں رہنا چاہئے ۔
- b) شیطان اور انسانی نفس انسان کے دشمن ہیں جن سے ہشیار رہنا بہت ضروری ہے ۔
- c) جنت بڑی قیمتی چیز ہے جسکے لئے بڑی قیمت ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔
انسان اپنے جان ومال کا حقیقی مالک نہیں ہے بلکہ اسکا حقیقی مالک اللہ تبارک وتعالی ہے