درجات کی بلندی
حديث نمبر : 50
بتاریخ : 18/19 رجب 1429ھ م: 22/21 جولائی 2008
عن أبي هريرة –رضي الله عنه – أن رسول الله r قال : ” ألا أدلكم على ما يمحو الله به الخطايا ويرفع به الدرجات ؟ ” ، قالوا : بلى يا رسول الله ، قال : ” إسباغ الوضوء على المكاره ، وكثرة الخُطا إلى المساجد ، وانتظار الصلاة بعد الصلاة ، فذلكم الرِّ باط فذلكم الرِّ باط فذلكم الرِّ باط ” .
(رواه مسلم : 1/219 برقم (251) كتاب الطهارة ، باب فضل إسباغ الوضوء على المكاره . )
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ t سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول r نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتلاوں جس سے اللہ تعالی خطائیں مٹادیتا اور درجے بلند کرتا ہے ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا : کیوں نہیں یا رسول اللہ ضرور بتلائیے آپ نے فرمایا : مشقتوں کے باوجود کامل وضو کرنا ، مسجدوں کی طرف کثرت سے قدم اٹھانا ، نماز کے بعد نماز کا انتظار کرنا ، پس یہی رباط [محاذ جنگ میں پڑاو ] ہے پس یہی رباط ہے پس یہی رباط ہے ۔
تشریح : اللہ تعالی نے اپنے فضل وکرم سے مسلمانوں کو ، بہت سے ایسے اعمال بتلائے ہیں جنکے ذریعہ ایک مسلمان اللہ کا قرب اور جنت میں بلند درجات حاصل کرسکتا اور اپنے گناہوں پر عفو و غفران کا قلم پھروا سکتا ہے ، وہ اعمال بظاہر اگر چہ نفس انسانی پر بھاری ہیں لیکن ان کا بجالانا مشکل کام نہیں ہے ، ان اعمال کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ذہنی اعتبار سے بندوں کا تعلق اللہ تعالی سے جوڑتے اور نفس و شیطان کی مخالفت کی دعوت دیتے ہیں ایک انسان کی کامیابی کا یہی اصل معیار ہے کہ اسکا تعلق اللہ تعالی سے جڑ جائے ، وہ اللہ تعالی کی عبادت پر جم جائے اور شیطان ونفس کی غلامی سے چھٹکارہ حاصل کرلے ، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ- { آل عمران 200 } اے اہل ایمان (کفار کے مقابلے میں) ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو اور مورچوں پر جمے رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ مراد حاصل کرو ۔
زیر بحث حدیث میں بھی ایسے ہی بعض عمل پر جمے رہنے اور ثابت قدم رہنے پر ترغیب ہے جو ایک مسلمان کیلئے جہاں ایک طرف درجات کی بلندی ، کامیابی اور مغفرت کا سبب ہیں تو دوسری طرف شیطان و نفس کے شر سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ، چنانچہ آپ نے ایسے تین کام کا ذکر فرمایا :
[۱] ناگوار حالت میں کامل وضو : ویسے بھی وضو ایک بڑی عبادت نماز کی قبولیت کے لئے شرط
اور بہت سے اعمال خیر کا پیش خیمہ ہے ، پھر اگر حالات ناگوار ہوں ، پانی کی سخت قلت ہو یا سخت سردی کا موسم ہو ، پانی ٹھنڈا ہو اور پانی کے گرم کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہ ہو ، یا سخت گرمی کا موسم ہو اور باہر کا پانی سخت گرم ہو ، اسے ٹھنڈا کرنے کا کوئی موقعہ نہ ہو تو ایسے حالات میں وضو کرنا اور اچھی طرح سے وضو کرنا انسانی نفس پر بہت بھاری ہے پھر اگر کوئی شخص ایسے ناگوار حالات میں بھی وضو کامل کا اہتمام کرتا ہے تو یہ اسکے کامل مومن ہونے کی دلیل ہے ، لہذا اللہ تبارک وتعالی اس مبارک عمل کے ذریعہ اسکے درجات کو بلند کرتا اور اسکے گناہوں کو معاف فرماتا ہے ۔
{۲} مسجد کی طرف کثرت اقدام : پانچ وقت مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنا بڑے اجر کا سبب ہے لیکن اگر مسجد دور ہو ، سردی وگرمی کا موسم ہو ، دھوپ یا اندھیرے کا سامنا ہو نے کے باوجود جماعت کو ترک نہ کرنا اور یہ ساری مشقتیں برداشت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ایسا شخص اپنے نفس وشیطان کی مخالفت میں کامیاب اور کامل ایمان والا ہے لہذا اللہ تعالی ایسے شخص کے ایمانی جذبات کی قدر کرتے ہوئے ہر ہر قدم پر اسکے درجات کو بلند کرتا اور اسکے گناہوں کو معاف فرماتا ہے ۔
{۳} نمازوں کا انتظار : نماز بندہ اور اسکے رب کے درمیان ہم کلامی کا ذردیعہ ہے ، بندہ جب نماز میں ہوتا ہے تو گویا اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوکر اس سے ہم کلام ہوتا ہے ، لیکن شیطان جو انسان کا دشمن ہے وہ نماز سے روکتااور نماز میں وسوسہ ڈالتا رہتا ہے ، اب اگر کوئی شخص اللہ تعالی سے اپنے شدت تعلق کی وجہ سے جب ایک نماز سے فارغ ہوکر دوسری نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے یا مسجد سے باہر تو ضرورت دنیاوی کے لئے چلا جاتا لیکن اسکا دل مسجد میں لگا رہتا ہے ، اسکی خواہش یہی رہتی ہے کہ کسقدر جلدی نماز کا وقت آئے کہ وہ سارے کام دھام چھوڑ کر مسجد کا رخ کرے یہ جذبہ اسکے مومن کامل ہونے کی دلیل ہے ، نیز یہ بھی دلیل ہے کہ وہ شخص اپنی خواہشات کو رضائے الہی کیلئے قربان کردے رہا ہے ، لہذا اللہ تبارک وتعالی ایسے شخص کے درجات کو بلند کرتا اور اسکے گناہوں پر قلم عفو پھیردیتا ہے ۔ اللھم اجعلنا منھم ۔
فـــــوائــــد :
- a) خیر وبھلائی کے راستے بہت زیادہ ہیں ۔
- b) کامل وضو ، مسجد کی طرف کثرت اقدام اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا اہتمام بڑی اہم نیکیاں ہیں ۔
- c) اللہ تعالی کی رحمت کہ بندوں کے درجات بلند کرتا اور انکے گناہوں کو معاف فرماتا ہے ۔
- d) نیکیاں گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہیں لیکن شرط یہ ہیکہ گناہ کا تعلق حقوق اللہ اور صغائر سے ہو ۔