اہم کامیابی
حديث نمبر : 52
بتاریخ : 3/4 شعبان 1429ھ م: 5/4اگست 2008
عن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما أن رسول الله r قال : قد أفلح من أسلم و رزق كفافا وقنعه الله بما آتاه .
( صحيح مسلم : 1054 ، الزكاة / سنن الترمذي : 2348 ، الزهد / سنن ابن ماجه : 4138 ، الزهد )
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہیکہ رسول r نے ارشاد فرمایا : یقینا کامیاب ہوا وہ شخص جو اسلام لایا ، اور اسے برابر سرابر روزی ملی اور اللہ تعالی نے اسے اپنے دئے پر قانع بنادیا ۔
تشریح : فوز و کامیابی ایک ایسی چیز ہے جسکا ہر شخص خواہاں اور اسکے لئے کوشاں ہے ، البتہ افراد ، مزاج اور عقل و سمجھ کے لحاظ سے فوز وکامیابی کا معیار مختلف اور کوششیں الگ الگ ہوتی ہیں لیکن حقیقی کامیابی آخرت کی کامیابی اور عذاب الہی سے نجات ہے ، فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ تو جو شخص آتش جہنم سے دور رکھا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچ گیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے
اسی کامیابی اور اسکی بعض علامات کا ذکر زیر بحث حدیث میں بیان ہوا ہے ، اس عظیم کامیابی جس سے انسان آخرت تو آخرت دنیا میں بھی امن و امان اور سکون و اطمینان کی زندگی بسر کرسکتا ہے ، اسکی تین علامتیں اس حدیث میں بیان ہوئی ہیں ۔
[ ۱ ] مسلمان ہونا : مسلمان ہونا ، اللہ تعالی کی عبودیت حقہ کو بجا لانا اور اپنے آپ کو مکمل طور پر خالق مطلق اور مربی اعظم کی تابعداری میں دے دینا ہی کامیابی کا اصل معیار ہے ، اسلام لاکر ہی کوئی بندہ جنت میں داخلے اور جہنم سے نجات کا مستحق بن سکتا ہے ، اسلام ہی وہ راستہ ہے جس پر چلکر انسان دنیا میں سعادت مند زندگی اور آخرت میں اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت سے شاد کام ہوسکتا ہے ، ومن اتبع ھدای فلا یضل ولا یشفی [ طہ : 123 ] اور جس نے میری ہدایت کی اتباع کی [ اسلام کی پیروی کی ] وہ نہ تو گمراہ ہوگا اور نہ ہی بدبختی سے دوچار ہوگا ۔
اسکے برخلاف جو شخص اسلام کا راستہ چھوڑ دے اسکا دامن دولت اسلام سے خالی رہ جائے اور اسے دنیا بھر کی دولت مل جائے اعلی سے اعلی منصب حاصل کرلے پھر بھی نہ دنیوی سکون اسے مل سکتا ہے اور نہ ہی آخرت میں عذاب الہی سے نجات پاسکتا ہے بلکہ ابدی شقاوت و بدبختی اسکا دامنگیر رہتی ہے ،
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى
اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے ۔
[۲] بقدر کفایت روزی : اسلام کی نعمت کے ساتھ اگر اللہ تعالی اپنے کسی بندے کو بقدر ضرورت روزی عطا کردے جس سے وہ اپنے اور اپنے ماتحت افراد کا پیٹ پال سکے ، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے محفوظ رہ سکے ، ایسی غربت سے بچا رہ جائے جو اسے اللہ اور یوم آخرت کو بھلا دے اور ایسی مالداری بھی نہ ہو جو اسے تکبر وغرور میں مبتلا کردے تو ایسا شخص یقینا دونوں جہاں میں کامیاب ہے ، برخلاف اگر انسان کو فقر وفاقہ کا سامنا رہا اور ایسا ایمان حاصل نہ رہا کہ صبر و احتساب کا دامن نہ چھوڑے تو ایسا شخص بہت قریب ہے کہ روزی حاصل کرنے کیلئے غلط راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجائے یا کم ازکم لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے دو چار ہوگا ،
اس لئے ہمارے نبی r کی دعا تھی : اللھم اجعل رزق آل محمد قوتا [ صحیح بخاری و مسلم بروایت ابو ہریرہ] اے اللہ آل محمد کو برابر سرابر روزی دے ۔
[ ۳ ] قناعت : حسب کفایت روزی کے ساتھ اگر انسان کو قناعت اور رضا بالقضا کی دولت نصیب نہ ہو تو ایسا شخص کبھی بھی کامیاب و سعادت مند نہیں ہو سکتا ، حسب ضرورت ہی ہی روزی ہی نہیں بلکہ لالچی و حریص شخص کو اگر دنیا کی دولت حاصل ہوجائے پھر بھی اسکی حرص پوری نہیں ہوتی ، بلکہ دنیا کی حرص اور زیادہ سے زیادہ کمانے کی فکر اسکے سکون و اطمینان کو چھین لیتی ہے ، سچ فرمایا ہے اللہ کے رسول r نے کہ مالداری و تونگری ساز و سامان کی کثرت کانام نہیں ہے بلکہ اصل مالداری نفس کی مالداری ہے ۔ [ بخاری و مسلم ]
اس لئے انسان کامیاب اسی وقت ہوسکتا ہے جب اسے بقدر کفایت روزی کے ساتھ ساتھ قناعت اور صبر کی دولت نصیب ہو ۔
اللھم بارک لی فیما رزقتنی و قنعنی فیہ ۔ اے اللہ ! آپ نے جو روزی ہمیں دیا ہے اس میں برکت دے اور اس پر قناعت کی توفیق بخش ۔
فوائد :
۱- اسلام اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے ۔
۲- بقدر کفایت روزی سے انسان سوال کی ذلت اور کبر و غرور کی برائی سے محفوظ رہتا ہے ۔
۳- قناعت ایک ایسی دولت ہے کہ اسکے بعد کسی مالداری کا تصوّر نہیں ہے ۔
۴- بڑا ہی خوش نصیب ہے وہ انسان جسے اسلام کی دولت کے ساتھ بقدر کفایت روزی اور قناعت کی دولت نصیب ہو جائے [ سنن ترمذی ]