بہترین مومن ؟
حديث نمبر : 54
بتاریخ : 17 / 18 شعبان 1429ھ م 19/18اگست 2008
عن عبد الله ابن عمر رضي الله عنهما قال : كنت مع رسول الله r فجاءه رجل من الأنصار فسلم على النبي r ثم قال : يا رسول الله ! أي المؤمنين أفضل ؟ قال : أحسنهم خلقا ، قال : أي المؤمنين أكيس ؟ قال : أكثرهم ذكرا للموت وأحسنهم لما بعده استعدادا أولئك الأكياس .
( سنن ابن ماجه : 4259 ، الزهد / الزهد للبيهقي : 456 ، ج : 1 ، ص : 190 )
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول r کے پاس موجود تھا کہ ایک انصاری صحابی آئے ، آپ r سے سلام کیا اور کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسول ! سب سے افضل مومن کون ہے ؟ آپ r نے جواب دیا : جو ان میں سب سے اچھے اخلاق والا ہے ، انصاری صحابی نے پھر سوال کیا کہ سب سے عقلمند مومن کون ہے ؟ آپr نے جواب میں فرمایا : جو ان میں سب سے زیادہ موت کو یاد کرنے والا اور موت کے بعد تیاری کرنے والا ہے ، یہی لوگ ہیں جو عقلمند ہیں ۔
تشریح : ایک بار اللہ کے رسول r ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے آرام فرمارہے تھے ، جب آپ بیدار ہوئے اور سیدھے ہوکر بیٹھے تو آپ کے پہلو میں چٹائی کا نشان صاف ظاہر ہورہا تھا ، یہ دیکھکر صحابہ کرام کے دلوں میں درد پیدا ہوا ، آنکھیں نم ہوگئیں اور عرض پرداز ہوئے : اے اللہ کے رسول r اگر اجازت دیں تو ہم آپ کیلئے ایک نرم گدا تیار کردیں ؟ آپ r نے فرمایا : مالی و للدنیا ؟ ما انا فی الدنیا الا کراکب استظل تحت شجرۃ ثم راح و ترکہا [ سنن ترمذی بروایت ابن مسعود ] مجھے دنیا سے کیا سروکار ، میں تو دنیا میں اس سوار کی طرح ہوں جو کسی درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کیلئے ٹہھرا ، پھر چل پڑا اور اس درخت کو چھوڑ دیا ۔
اس دنیا میں ہر شخص ایک مسافر ہے جو اپنی حقیقی منزل کیلئے رواں دواں ہے ، حالت سفر میں کسی بھی مسافر کے اندر دو خصلتیں بڑی اہم ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ وہ اپنے سفر کرنے والوں کے ساتھ حسن خلقی کا مظاہرہ کرتا ہے کیونکہ یہ سمجھتا ہے کہ یہی لوگ اس وقت اسکے مونس و مددگار ہیں اور دوسری صفت یہ کہ وہ اپنی حقیقی منزل تک پہنچنے کیلئے بے تاب اور پریشان رہتا ہے ، جب بھی سفر میں کوئی روکاوٹ پیش آتی ہے تو سخت الجھن میں پڑ جاتا ہے جس طرح کہ اگر ساتھ سفر کرنے والا اسکے ساتھ بد سلوکی کا مظاہرہ کرتا ہے تو وہ خطرہ محسوس کرنے لگتا ہے ۔
زیر بحث حدیث میں ایک انسان جو آخرت کا مسافر ہے کی رہنمائی انہیں دو اصولوں کی طرف مبذول کی گئی ہے ، چنانچہ جب آپ r سے یہ سوال کیا گیا کہ سب سے اچھا مومن کون ؟ تو آپ r نے جواب دیا کہ جسکے اخلاق اچھے ہوں ، اسکے اخلاق اپنے خالق کے ساتھ اچھے اور مخلوق کے ساتھ بھی اچھے ہوں ، مخلوق میں جانداروں کے ساتھ بھی اچھے ہوں اور بے جانوں کے ساتھ بھی اچھے ہوں ، جانداروں میں انسانوں کے ساتھ بھی اچھے ہوں اور حیوانوں کے ساتھ بھی اچھے ہوں ، انسانوں میں مسلمانوں کے ساتھ اچھے ہوں اور غیر مسلموں کے ساتھ بھی اچھے ہوں ، عزیز واقارب اور پڑوسیوں اور ساتھیوں کے ساتھ بھی اچھے ہوں اور انکے علاوہ دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی اچھے ہوں گویا یہ کہ اسے ہر حال میں ، ہر جگہ میں اور ہر ایک کے ساتھ حسن خلقی کا مظاہرہ کرنا چاہئے سچ فرمایا سب سے کامل اخلاق کے حامل اور معلم اخلاق r نے کہ تم میں کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو ۔ [ سنن الترمذی بروایت ابوہریرہ ]
آپ r سے دوسرا سوال سب سے عقلمند اور دانشور سے متعلق تھا ، جسکے جواب میں آپ نے فرمایا : موت اور موت کے بعد کی زندگی کو کثرت سے یاد کرتا ہو اور اسکے لئے تیاری کررہا ہو وہی شخص عقلمند اور دانشور ہے کیونکہ وہی زندگی ہی اصل زندگی ہے ، وہی زندگی ہے جسکے بعد موت نہیں وہ ایسی منزل ہے جسکے بعد کوچ کرنا نہیں ہے ، وہاں ایسی صحت ہے جہاں مرض کا تصور نہیں ہے وہاں ایسا آرام ہے جسکے بعد کوئی تکلیف نہیں ہے وہاں ایسا سکون ہے جس میں کسی بھی الجھن و قلق کی ملاوٹ نہیں ہے اسکے برخلاف یہ دنیا کی زندگی اگر دو محبوبوں کو جمع کرتی ہے تو ایک نہ ایک دن جدا بھی کردیتی ہے ، دو دوستوں کو ملاتی ہے تو ایک نہ ایک دن پھوٹ ڈال دیتی ہے ، یہاں اگر غنا حاصل ہوتا ہے تو اسکے بعد فقر کا لاحق ہونا ضروری ہے وغیرہ، سچ ہے وَمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( العنكبوت : 64 ) اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشہ ہے اور( ہمیشہ کی) زندگی (کا مقام) تو آخرت کا گھر ہے۔ کاش یہ (لوگ) سمجھتے
اور یہ حقیقت ہے کہ دنیا اس شخص کا گھر ہے جسکے لئے [ آخرت میں ] گھر نہیں اسکا مال ہے جسکے لئے [ آخرت میں ] مال نہیں اور دنیا کیلئے وہی شخص جمع کررہا ہے جسکے پاس عقل نہیں ۔
[ مسند احمد ، ج : 6 ، ص : 71 / شعب الایمان ، ج : 10 ، ص : 185 ، بروایت عائشہ رضی اللہ عنہا ]
فائدے :
0- کسی مجلس میں آنے کا سب سے پہلا ادب سلام کرنا ہے ۔
1- اچھے اخلاق کی فضیلت اور اسمیں سب سے افضل اللہ کے ساتھ حسن خلقی ہے ۔
2- دنیا میں مشغولیت بے عقلی کی دلیل ہے ۔
3- موت کو کثرت سے یاد کرنا اور اسکے بعد کی تیاری ہی اصل دانشوری ہے ۔