فضائل امت محمدیہ
حديث نمبر : 60
بتاریخ : 16 / 17 محرم الحرام 1430ھ م 13/12جنوری 2009
عن أبي موسى رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أمتي هذه مرحومة ، ليس عليها عذاب في الآخرة ، عذابها في الدنيا ، الفتن والزلازل والقتل .
( سنن أبو داود : 2478، الفتن / مسند أحمد : 4/410 / الحاكم : 4/444 )
ترجمہ : حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری یہ امت ایسی امت ہے جس پر اللہ تعالی کی خاص رحمت ہے [ اس طرح کہ ] اس امت پر آخرت میں [دیگر امتوں کی طرح ] عذاب نہیں ہے ، اس کا عذاب دنیا ہی میں فتنوں زلزلے و مصائب اور قتل وغیرہ کی صورت میں ہے ۔ [ سنن ابوداود ، مسند احمد ، مستدرک حاکم ]
تشریح : اللہ تبارک وتعالی نے اس امت کو ایسے خصائص وفضائل سے نوازا ہے جو کسی اور امت کو حاصل نہیں ہے ، چنانچہ اللہ تعالی نے اسے دنیا کی سب سے بہتر امت قرار دیا ہے ، اپنے سب سے محبوب اور افضل نبی کی امت بنایا ، دیگر قوموں پر جو سختیاں اور بوجھ تھا اس سےاس امت کو محفوظ رکھا ہے بلکہ اگر قرآن واحادیث نبویہ پر غور کیا جائے تو اس امت کی درزنوں ایسی خصوصیات وفضائل ہیں جو کسی دوسری قوم کو حاصل نہیں جیسے : اس امت کے ستر ہزار بلکہ اس سےبھی زیادہ لوگوں کا جنت میں بغیر حساب کے داخل ہونا ، جنت میں سب سے بڑی تعداد بلکہ جنت کے دو تہائی حصہ کا وارث بننا ، حشر کے میدان میں دیگر قوموں پر گواہ بننا ، دنیا میں اجتماعی عذاب سے محفوظ رہنا ، اگر دنیا کی ساری قومیں بھی چاہ لیں تو بھی اس امت کو بیخ وبن سے نہیں اکھاڑ سکتے ، قیامت تک ایک جماعت کا عزیز و غالب رہنا اور پوری امت کا کسی غیر شرعی کام پر اتفاق نہ کرنا وغیرہ وغیرہ ۔
زیر بحث حدیث میں بھی اسی امت کی ایک اہم فضیلت کا ذکر ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری امت پر اللہ تعالی کی خصوصی رحمت ہے کہ سختیوں کے بجائے اس کے اوپر بڑی آسانیاں رکھی گئی ہیں حالانکہ اس سے پہلی امتوں کو یہ چیز حاصل نہیں تھی ، مثال کے طور پر بنی اسرائیل سے گناہ ہوا تو ان کی توبہ یہ رکھی گئی کہ وہ ایک دوسرے کو قتل کرکے ہلاک کردیں ، پھر جولوگ بچیں گے ان کی توبہ قبول کی جائے گی ، جبکہ میری امت کی توبہ صرف شرمندگی و ندامت اور زبان سے اظہار ہے ، بنی اسرائیل پر زکاۃ کی شرح مال کا ایک چوتھا حصہ تھی جب کہ اس امت سے صرف ڈھائی فیصد کا مطالبہ ہے ، بنی اسرائیل کے کپڑے پر اگر گندگی لگتی تو اسے کاٹ کر پھینک دینا پڑتا ، جب کہ اس امت پر صرف یہ واجب ہے کہ گندگی کو پانی سے زائل کردے ، وغیرہ وغیرہ ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت پر اللہ تعالی کی خصوصی رحمت کا ایک مظہر یہ بتلایا کہ آخرت میں میری امت پر دیگر امتوں کے مقابلہ میں عذاب بہت کم ہے بلکہ میری امت کا کوئی بھی شخص اگر شرک کا کھلے عام مرتکب نہیں ہے تو اس کے گناہ خواہ کتنے زیادہ ہوں یا تو وہ رحمت الہی یا نبی کی شفاعت یا عام مسلمانوں کی سفارش سے معاف ہونگے ، اور اگر کسی کے جرم کی قباحت کی وجہ سے اسے عذاب دیا بھی گیا تو اولا ایسے افراد اور قوموں کے مقابلہ میں کم ہونگے ، ثانیا ان کا عذاب دائمی نہ ہوگا ، بلکہ اللہ تعالی نے اسکا بدلہ یہ رکھا ہے کہ دنیا میں جو کچھ مصائب و پریشانی انہیں لاحق ہوگی یہ آخرت میں ان کے گناہوں اور کوتاہیوں کا کفارہ بنے گی ، اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب کے مقابلہ میں ہلکا اور بہت ہلکا ہے ، لہذا اس دنیا میں اگر مسلمان زلزلوں اور طوفانوں کے شکار ہوتے ہیں ، اگرچہ آپسی لڑائیوں اور اختلاف میں ہزاروں مسلمان کام آجاتے ہیں ، اور بسااوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کافر قومیں مسلمانوں کے کسی خطے میں انہیں سخت قتل وغارت گری سے دوچار کرتی ہیں ، لیکن ایک مسلمان جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے یہ سب دیکھ کر اسے پست ہمتی، ذلت اور اللہ تعالی کے بارے میں بدظنی کا شکار نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسے چاہئے کہ اپنا محاسبہ کرے ، اپنی اصلاح ، اپنے ماتحتوں کی اصلاح ، اپنے متعلقین کی اصلاح اور عمومی امت محمدیہ کے اصلاح کی کوشش کرے ، حسب اسطاعت دامے درمے قدمے سخنے مجبور اور مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد کرے اور یہ یقین رکھے کہ جو لوگ زلزلوں ، طوفانوں اور ظالموں کے ہاتھ قتل و شہید ہورہے ہیں ، ان کی دنیا اگر چہ بگڑ گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے ان کی آخرت سنوررہی ہے [ ان شاء اللہ ] ، “والآخرۃ خیر و ابقی”
فـــوائـــد :
- امت محمدیہ کی فضیلت ۔
- مسلمانوں کو چھوٹی بڑی جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔
- اس دنیا میں مسلم و کافردونوں خوف ، مرض ، زلزلے ، اور مختلف وبائی امراض کے شکار ہوتے ہیں ، جو کافروں کے لئے تو عذاب ہیں البتہ ایک مسلمان کے لئے عبرت و رحمت ہیں کیونکہ ان سے ان کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے :
“إِن تَكُونُواْ تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللّهِ مَا لاَ يَرْجُونَ” اگر تم بیآرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بیآرام ہوتے ہو اسی طرح وہ بھی بیآرام ہوتے ہیں اور تم خدا سے ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھ سکتے ۔
D – آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے سخت اور بہت سخت ہے ۔
ختم شده