مل جائے اگر یہ
حديث نمبر : 61
بتاریخ : 23 / 24 محرم الحرام 1430ھ م 20/19جنوری 2009 عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : أربع إذا كن فيك فلا عليك ما فاتك من الدنيا حفظ أمانة وصدق حديث ، وحسن خليقة وعفة في طعمة . ( أحمد : 2/177 | شعب الإيمان : 6/450 | المستدرك : 4/314 ) ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : چار چیزیں جب تجھے مل جائیں تو دنیا کی کسی چیز کے نہ ملنے پر افسوس نہ کرنا ، امانت کی حفاظت ، سچی گفتگو ، عمدہ اخلاق ، اور حلال روزی ۔ { مسند احمد ، شعب الایمان ، مستدرک الحاکم } تشریح : اللہ تبارک و تعالی نے بنی نوع انسان کو فطرۃ بے صبرا ، کچے دل والا اور بے قرار و بے ثبات پیدا کیا ہے ، لالچ، زیادہ مال جمع کرنا اور لوگوں پر اپنی بڑائی ظاہر کرنا اس کی طبیعت میں داخل ہے ، یہ کسی نقصان پر بہت جلد گھبرا اور پریشان ہوجاتا ہے اور جب کوئی خیر حاصل ہوتی ہے تو بخل و حرص کا اس پر غلبہ ہو جاتا ہے سچ فرمایا ہے اللہ تبارک و تعالی نے “إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا *ِ إذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا * وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا ” ( سورة المعارج : 19-21) کچھ شک نہیں کہ انسان کم حوصلہ پیدا ہوا ہے * جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے* اور جب آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے البتہ ایک مومن یقین رکھتا ہے کہ یہ اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے ایک آزمائش ہے ، اللہ تبارک وتعالی یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ کون شخص ہے جو سختی و مشکل اور آسانی و راحت ہر حالت پر اسے یاد رکھتا ہے اور کون شخص ہے کہ اسے وقت راحت میں یاد رکھتا ہے اور نہ مشکل میں اس سے خوف کھاتا ہے ، اس کا ایمان ہے کہ یہ دنیا فانی ، اس کی ہر نعمت فانی اس میں پیش آمدہ ہر مصیبت فانی اور اس دنیا کی ساری زیب و زینت فانی ہے حقیقی راحت جس کے بعد پریشانی نہیں اور اصل زندگی جس کے بعد موت نہیں آخرت کی زندگی ہے ، لہذا وہ اسے بنانے کی کوشش اور اسے آباد کرنے کی فکر کرتا ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب اس دنیا میں اس کا تعلق خالق و مخلوق کے ساتھ ساز گار اور درست رہے ، زیر بحث حدیث میں ایسی چند باتوں کی طرف ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلائی ہے ۔ چنانچہ اس حدیث میں ایسی چار چیزوں کی طرف رہنمائی کی گئی ہے جو اس دنیا میں سعادت مند زندگی گزارنے کے لئے مشعل راہ بن سکتی ہیں ۔ [1] حفظ امانت : حفظ امانت سے مراد یہ ہے جو امانت بندے کے پاس رکھی گئی ہے اس کی مکمل حفاظت کرے ، اس میں خیانت سے کام لینا اور اسے ضائع کردینا ایمان کی نشانی نہیں ہے ، یہ امانت بندے اور اس کے خالق کے بیچ بھی ہوسکتی ہے کیونکہ سارے احکام الہی بندے کے پاس اس کی امانت ہیں جن کا ادا کرنا بندوں پر فرض ہے ، گناہ کے تمام کام سے پرہیز اللہ کی امانت ہے جن سے پرہیز ہر شخص پر واجب ہے حتی کہ حدیث میں وارد ہے کہ غسل جنابت بھی امانت ہے ۔ [2] سچ گوئی : اس حدیث میں سعادت مند زندگی گزارنے کا دوسرا نسخہ سچائی و صداقت ہے یعنی بندے کو سچ گوئی اور حق گوئی کو لازم پکڑنا چاہئے ، یہ سچ گوئی خواہ دینی امور سے متعلق ہو یا دنیوی امور سے متعلق ہو ، یہ سچ گوئی و حق گوئی خواہ بندوں سے متعلق ہو یا خالق کائنات اور عالم اسرار و خفیات سے متعلق ہو ، ہر جگہ بندے کو سچ گوئی کو لازم پکڑنا چاہئے ، جہاں ایک بندے کے لئے اپنے معاملات میں سچا ہونا ضروری ہے وہیں چاہئے کہ وہ اپنے عقائد و عبادات میں بھی سچا ہو ، اس لئے منافق کی اہم نشانیوں میں سے ایک نشانی جھوٹ بولنا بھی ہے ۔ [3] حسن خلق : دنیا و آخرت کی کامیابی میں اچھے اخلاق کا بہت بڑا دخل ہے ، یہ حسن خلقی خالق کے ساتھ بھی ہوتی ہے کہ انسان اس کے تمام احکام کوشرح صدر کے ساتھ قبول کرلے اور حسن اسلوبی سے بجالائے اور مخلوق کے ساتھ بھی حسن خلقی ہونی چاہئے کہ لوگوں سے اچھے انداز سے بات کرے ، بشاشت و خوش روی سے پیش آئے ، لوگوں سے بلاوجہ لڑائی و جھگڑا اور گالی گلوج سے پیش آنا ایک مومن کی شان نہیں ہے ، اس حسن خلقی سے ایک بندہ جہاں لوگوں کے دلوں میں اپنی اچھی جگہ بنا لیتا ہے وہیں قیامت کے دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت بھی حاصل کرسکتا ہے ۔ [4] پاک روزی : اگر کسی کو پاک روزی مل جائے خواہ قلیل ہی مقدار میں ہو تو بندے کے لئے یہ بڑی سعادت مندی ہے ، کیونکہ جہاں ایک طرف وہ دنیا میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور ذلیل ہونے سے محفوظ رہے گا وہیں اللہ تعالی کے نزدیک عبادت اور دعا کی قبولیت کا ذریعہ بھی ، اس دنیا میں پاک کمائی جہاں روزی میں برکت اور صحت مند زندگی کا سبب ہے وہیں قیامت کے دن رحمت و مغفرت الہی کے حصول کا ذریعہ بھی ہے ۔ نوٹ : اس نبوی دعا کو ضرور یاد کرلیں : اللهم إني أسألك الصحة والعفة والأمانة وحسن الخلق والرضا بالقدر . ( الأدب المفرد للبخاري : 307 ) اے اللہ میں آپ سے صحت ، پاک بازی ، امانت ، اچھے اخلاق اور آپ کی مقرر کردہ تقدیر پر رضا کا سوال کرتا ہوں ۔ختم شدہ |
|