حدیث خیر و شر
حديث نمبر :63
بتاریخ : 7 / 8 صفر 1430ھ م 03/02فروری 2009
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من دعا إلى هدى كان له من الأجر مثل أجور من تبعه ، لا ينقص ذلك من أجورهم شيئا ، ومن دعا إلى ضلالة كان عليه من الإثم مثل آثام من تبعه ، لا ينقص ذلك من آثامهم شيئا .
( صحيح مسلم : 2674 ، العلم / سنن أبوداؤد : 4609، السنة / سنن الترمذي : 2674 ، العلم )
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو راہ ہدایت کی دعوت دے اسے اتنا اجر ہے جتنا اس کی اتباع کرنے والوں کو ہوگا ، لیکن ان اتباع کرنے والوں میں سے کسی کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی ، اور جو کسی گمراہی کی دعوت دے اسے اس قدر گناہ ہوگا جس قدر اس گمراہی پر اس کی پیروی کرنے والوں کو ہوگا ، لیکن ان پیروی کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی ۔ { صحیح مسلم ، سنن ابو داود ، سنن الترمذی }
تشریح : اس حدیث میں کار خیر اور راہ ہدایت کی طرف دعوت پر ابھارا گیا ہے ، اس سے داعی کی فضیلت واضح ہوتی ہے اسی طرح گمراہی اور کار بد کی طرف دعوت پر تنبیہ اور برے عمل کے لئے راہ ہموار کرنے والوں کے جرم کی قباحت بھی ثابت ہوتی ہے ۔
اس حدیث میں وارد لفظ ھدی [ راہ ہدایت ] سے مراد ہر وہ عمل ہے جو اچھا ہو اور شریعت کے موافق ہو ، لہذا نفع بخش عمل اور نیک عمل راہ ہدایت ہے ، تو ہر وہ شخص جس نے مفید علم کی تعلیم دی ، یا علم حاصل کرنے والے کو ایسی راہ بتلائی جس سے وہ صحیح علم حاصل کرسکے تو اس نے راہ ہدایت کی طرف دعوت دی ۔
ہروہ شخص جس نے کسی نیک عمل کی طرف دعوت دی اس نے راہ ہدایت کی طرف دعوت دی ، ہر وہ شخص جس نے کوئی دینی نصیحت کی یا دنیوی نصیحت کی جس سے دین کے کام میں مدد ملے ، اس نے ہدایت کی طرف بلایا ، ہر وہ شخص جس کے علم و عمل کو دیکھ کر لوگ اس کی اتباع کرنے لگیں لوگ بھی اسی جیسا عمل کرنے لگیں تو گویا اس نے کسی راہ ہدایت کی طرف دعوت دی ،
ہر وہ شخص جس نے کسی عمل خیر میں سبقت کی جس کے پیچھے لوگ چل پڑے اس نے راہ ہدایت کی طرف دعوت دی ،
علی سبیل المثال ایک شخص نے دیکھا کہ لوگ چاشت کی نماز کا اہتمام نہیں کرتے تو اس نے لوگوں کو اس نماز کی طرف ابھارا اور لوگ اس نماز کا اہتمام کرنے لگے تو اس نے راہ ہدایت کی طرف دعوت دی،
اب جو لوگ بھی اسکے بعد سے اس نماز کا اہتمام کریں گے ان کے ساتھ ساتھ اس شخص کو بھی نماز کا اجر ملتا رہے گا ، اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی گاوں میں کنوئے کی ضرورت محسوس کی یا گاوں کو مدرسہ سے خالی پایا اور لوگوں کو مدرسہ بنوانے اور کنواں کھودنے کی ترغیب دی، اور آگے بڑھ کر خود بھی اس کار خیر میں شریک ہوگیا تو اس کنویں و مدرسے سے مستفید ہونے والوں کے برابر اس شخص کو اجر ملتا رہےگا ، البتہ لوگوں کے اجر میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی ۔
اس کے برخلاف شر ہر برا کام ہے جو شریعت کےخلاف ہو ، اگر کوئی شخص کسی کاربد کی طرف دعوت دیتا ہے تو اسے اس برے کام پر عمل کرنے والوں کے برابر گناہ ملتا رہے گا ۔
ہر وہ شخص جس نے کوئی برائی کا اڈہ بنادیا ، یالوگوں کو بنانے پر ابھارا تو گویا اس نے گمراہی کی طرف دعوت دی ، ہر وہ شخص جس نے اپنے کمرے ، محلے اور گھر میں وی ،سی،آر، اور ڈش وغیرہ کا انتظام کیا تو اس نے گمراہی کی طرف دعوت دی ، ہر وہ شخص جس نے انٹرنیٹ پر کوئی فحش مادہ پیش کیا اس نے گمراہی کی طرف دعوت دی ، ہر وہ شخص جس نے لوگوں کو کسی معصوم کے قتل پر ابھارا اس نے گمراہی کی طرف دعوت دی ، اسی پر باقی چیزوں کو قیاس کیا جاسکتا ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کچھ لوگ کارخیر کی کنجی اور شر کے لئے تالا ہوتے ہیں اور کچھ لوگ شر کے لئے کنجی اور کارخیر کے لئے تالاہوتے ہیں ، پس کیا خوب ہیں وہ لوگ جو خیر کے لئے کنجی اور شر کے لئے تالا ہوں، اور تباہی ہے ان لوگوں کے لئے جو شر کے لئے کنجی اور خیر کے لئے تالا ہوں ۔
[ سنن ابن ماجہ : 237 ، السنہ لابن ابی عاصم :251 ، براویت انس بن مالک ]
فوائد :
- A. نیک کام یا برا کام کرنے والا اور ان کا سبب بننے والا دونوں اجر و گناہ میں برابر ہیں ۔
- B. اسلام لوگوں کو خیر پر ابھارتا ، شر اور اس کا سبب بننے سے روکتا ہے ۔
- C. کارخیر کی طرف دعوت زبان سے بھی ہوسکتی ہے اور عمل سے بھی اور شر کی طرف دعوت زبان سے بھی ہوسکتی ہے اور عمل سے بھی ۔
- D. ہر کام کے انجام دینے سے پہلے ایک لمحہ کے لئے سوچ لینا چاہئے کہ اس کا یہ قدم کس سمت جارہا ہے ۔
ختم شدہ