بے مثال تحفے
حديث نمبر :65
بتاریخ : 21 / 22 صفر 1430ھ، م 17/16فروری 2009
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بَيْنَمَا جِبْرِيلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ نَقِيضًا مِنْ فَوْقِهِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ هَذَا بَابٌ مِنْ السَّمَاءِ فُتِحَ الْيَوْمَ لَمْ يُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَكٌ فَقَالَ هَذَا مَلَكٌ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ لَمْ يَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ فَسَلَّمَ وَقَالَ أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلَكَ فَاتِحَةُ الْكِتَابِ وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا إِلَّا أُعْطِيتَهُ .
( صحيح مسلم : 806 ، صلاة المسافرين / سنن النسائي : 912 ، الافتتاح )
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اوپر سے ایک کھڑکھڑاہٹ کی آواز سنی تو اپنا سر اوپر اٹھایا اوراس پر حضرت جبرئیل نے فرمایا : یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج کھولا گیا ہے اور آج سے قبل کبھی بھی نہیں کھولا گیا تھا ، پھر اس سے ایک فرشتہ نازل ہوا ، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا : یہ ایک فرشتہ ہے جو زمین پر اترا ہے جو آج سے قبل کبھی بھی نہیں اترا تھا ، پس اس فرشتے نے کہا { یا رسول اللہ } آپ کو دو”نوروں” کی بشارت ہے جو آپ کو عطا کئے گئے ہیں اور آپ سےپہلے کسی نبی کو نہیں دئے گئے ، ایک سورۃ الفاتحہ اور دوسرا سورۃ البقرہ کی آخری آیات ، آپ ان میں سے جس ایک حرف کی بھی تلاوت کریں گے { مضمون کی مناسبت سے } وہ چیز آپ کو عطاء کی جائے گی ۔ { صحیح مسلم و سنن نسائی }
تشریح : اس حدیث میں سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کے آخری تین آیتوں کی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ اولا تو انہیں نور قرار دیا گیا ہے ، جس کا معنی ہے کہ جو شخص انکا اہتمام کرے گا ، ان کے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کریگا اور انکے مقتضا پر عمل کرے گا تو یہ دونوں چیزیں دنیا میں اسے سیدھے راستے اور درست منہج کی طرف رہنمائی کریں گی اور آخرت میں اس کے نور کا سبب بنیں گی ، یا اس کے آگے آگے بطور نور کے چل رہی ہوں گی ، اس حدیث میں سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کے آخر کی آیتوں کی ایک فضیلت یہ بھی بیان ہوئی کہ ان کے جس جملے کو بھی بندہ ایمان و اخلاص کے ساتھ پڑھے گا اس جملے میں جس چیز کا بھی سوال ہوگا اللہ تعالی اسے عطا فرمائے گا اور اگر وہ جملہ دعا نہ ہوگا تو اس کے اجر و ثواب سے محروم نہ کرے گا اور اس کے عمل کو قبول فرمائے گا ۔
سورہ فاتحہ کی اس فضیلت کو ایک حدیث قدسی میں اس طرح واضح کیا گیا ہے ۔
ابو السائب انصاری مدنی نامی ایک تابعی روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جس نے کوئی ایسی نماز پڑھی جس میں سورہ فاتحہ کی تلاوت نہ کی تو اس کی نماز ادھوری اور بے فائدہ ہے ، تو میں نے عرض کیا : اے ابوہریرہ ! جب کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو سورہ فاتحہ کی تلاوت کیسے کروں ؟ اس پر حضرت ابو ہریرہ نے میرے بازو پکڑ کر جھجھوڑے اور فرمایا : اے فارسی اسے تم آہستہ آہستہ پڑھ لیا کرو ، کیونکہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلمسے سنا ، آپ فرمارہے تھے کہ اللہ تعالی فرمایا ہے کہ : میں نماز { یعنی سورہ فاتحہ } کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھا آدھا بانٹ دیا ہے ، آدھی تو میرے لئے ہے اور آدھی میرے بندے کے لئے ہے اور اس میں میرا بندہ جو مجھ سے مانگے گا وہ میں دوں گا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
سورہ فاتحہ پڑھو ، بندہ جب کہتا ہے :” الحمد للہ رب العالمین ” { سب تعریف اللہ تعالی کے لئے ہے }
تو اللہ تعالی فرماتا ہے : میرے بندے نے میری ثنا بیان کی ، بندہ جب کہتا ہے : ” مالک یوم الدین “{ بدلے کے دن [یعنی قیامت ] کا مالک ہے }
تو اللہ تعالی فرماتا ہے : میرے بندے نے میری تعظیم و تمجید کی ، پھر بندہ جب کہتا ہے “ایاک نعبد و ایاک نستعین “{ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں }
تو اللہ تعالی فرماتا ہے : کہ یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے { یعنی اس میں میرے سامنے تذلل و انکساری ہے اور مجھ سے سوال بھی ہے } لہذا میرا بندہ جو کچھ مانگے اسے ملے گا ، پھر جب بندہ کہتا ہے کہ ” اھدنا الصراط المستقیم ، صراط الذین انعمت علیھم ، غیر المغضوب علیھم ولا الضالین ” { ہمیں سیدھی راہ دکھا ،ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ، ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا ، اور نہ گمراہوں کی } ۔
تو اللہ تعالی فرماتا ہے یہ تمام میرے بندے کے لئے ہے اور میرا بندہ جو کچھ مانگے اسے ملے گا ۔ { صحیح مسلم و سنن اربعہ }
{ نوٹ : سورہ بقرہ کی آخری آیات سے متعلق گفتگو اگلے ہفتے ہوگی ، ان شاء اللہ }
فوائد :
1- سورہ فاتحہ کی فضیلت ۔
2- سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ، خواہ امام ہو یا مقتدی ۔
3- نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی فضیلت ۔
4- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو علم غیب نہیں تھا ۔
ختم شدہ