تقدير پر ايمان
حديث نمبر 67
بتاريخ :17/18 ذي الحجة 1429هـ 15/16ديسمبر 2008م
{معذرت کے ساتھ کہ کچھ فنی مشکلات کی بنا پر اس درس کو تاخیر سے پیش کیا جارہا ہے ۔ ادارہ }
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (كل شيء بقدر حتى العجز والكيس)
موطأ مالك: 2830 القدر، صحيح مسلم: 2685القجر،مسند أحمد ص210/2
ترجمة: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا : ہر چيز تقدير سے ہے حتی کہ نادانی ودانای بھی ۔
مؤطا امام مالك وصحيح مسلم
تشريح: اللہ تبارک وتعالی کا علم ازلی اور ہر چيز پر محيط ہے ، مخلوق کے سارے احوال وافعال کا علم اسے ازل سے ہے ، وہ ہر کليات وجزئيات کو جانتا ہے ، باريک سے باريک اور چھوٹی سی چھوٹی کوئ چيز بھی اسکے علم سے خارج نہيں ہے ،
{وَأَنَّ اللهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا } [ سُورَةُ الطَّلاَقِ 12]۔
اور اللہ تعالی نے ہرچيز کو بہ اعتبار علم گھير رکھا ہے۔
پھر اللہ تعالی نے اپنے اس علم کو مخلوق کی پيدائش سے بہت پہلے لکہ کر لوح محفوظ ميں رکہ ليا ہے ، { أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالأَرْضِ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرٌ } [ سُورَةُ الْحَجِّ 70 ]
کيا آپ نے نہيں جاناکہ آسمان وزمين کی ہر چيز اللہ کے علم ميں ہے ۔ يہ سب لکھی ہوئ کتاب ميں محفوظ ہے ، اللہ تعالی پر تو يہ امر باکل آسان ہے ۔
اب اس دنيا ميں جو کچہ ہو رہا ہے يا اس قبل ہو چکا ہے يا قيا مت اور اسکے بعد تک ہوتا رہے گا وہ اسی علم وتقدير کے مطابق اپنے اپنے وقت پر ہورہا ہے ، ليکن اسکا مطلب يہ نہيں ہے کہ اسميں اللہ تعالی کی حکمت ومشيت کو دخل نہيں ہے ، ايسا نہيں بلکہ جوکچہ ہورہا ہے وہ مشيت الہی کے مطابق ہو رہا ہے اور ان ميں سے وہ تمام چيزيں جو بندوں کے افعال واقوال سے متعلق ہيں انکے کرنے اور نہ کرنے کا بندوں کو اختيار بھی ديا گيا ہے ، پس جوشخص اللہ تعالی کی دی گئ اس قدرت و اختيار کو اپنے رب کی مرضی کے مطابق صرف کرتا ہے تو اللہ تعالی اسکے لۓاپنے مقدر کردہ ہدايت ورشد کے راستے کو آسان بنا ديتا ہے ، ايسے شخص کے دل کو نور ايمان سے مزين اور اسکے لۓ امور ايمان کو آسان بنا ديتا ہے ، بر خلاف اس کے جو شخص اپنے اس اختيار کو اپنے رب کی مرضی کے مطابق صرف نہيں کرتا بلکہ اپنی خواہش اور شيطان کی پيروی ميں لگا رہتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی اسکے لۓ کفر وشرک اور معصيت و نافرمانی کے راستے آسان کرديتا ہے ، شيطان کو اسکا دوست اور ضلالت وگمراہی کو اسکے لۓ ميسر کرديتا ہے
{ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى. وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى. فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى. بَخِلَ وَاسْتَغْنَى. وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى. فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى }
[ سُورَةُ اللَّيْلِ 5،10 ]
پس جس نے ديا اللہ کی راہ ميں اور ڈرا اپنے رب سے اور نيک بات کی تصديق کرتا رہے گا تو ہم بھی اسکو آسان راستے [نيکی وطاعت ]کی سہولت ديں گے ليکن جس نے بخيلی کی اور بے پر واہی برتی اور نيک بات [دين کی باتوں] کی تکذيب کی تو ہم بھی اسکی تنگی ومشکل کے سامان {يعنی کفر ومعصيت اور طريق شر کو] ميسر کرديں گے ۔
يہ وہ تقدير ہے جس پر ہر مسلمان کا ايمان ہونا لازمی ہے ، بلکہ يہ ايمان کاايک ايسا رکن ہے کہ کسی بھی بندے کا ايمان اس وقت تک مقبول نہيں ہو سکتا جب تک کہ اس تقدير پر ايمان نہ لاۓ ،
ارشاد نبوی ہے کہ اگر کو ئ شخص احد پہاڑ کے برابر سونا بھی اللہ تعالی کے راستے ميں خرچ کرے تو يہ اس وقت تک مقبول نہيں ہوسکتا جب تک کہ بندہ اللہ تعالی کی مقدر کردہ تقدير پر ايمان نہ لاۓ ۔ [ احمد ۔ ابوداود بروايت زيد بن ثابت ]
نيز يہ بھی ضروری ہے کہ يہ ايمان بندے کی ہر حرکات وسکنات اور ہر چھوٹے بڑے عمل و کيفيت سے متعلق ہو حتی کہ اگر کوئ شخص اپنے دينی ودنيوی امور ميں دانائ و ہوشياری سے کام ليتا ہے تو يہ بھی تقدير الہی سے ہے ، اور بر خلاف اسکے اگر گوئ شخص اپنے دينی و دنيوی امور ميں کوتاہی و عاجزی سے کام ليتا ہے تو يہ بھی اللہ تعالی کی تقدير ہی سے ہے ، اسلۓ ايک مومن کو طاعت و خير کے کام ميں دانائ و ہوشياری سے کام لينا چا ہے ، اور معصيت و نافرمانی کے سامنے لا پر وہی و عاجزی کا مظاہرہ کرناچاہئے ۔
جيسا کہ ارشاد نبوی ہے : دانا وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرلے اور اسے اللہ تعالی کے لۓ عاجز و پست کر لے اور موت کے بعد آنے والی زندگی کےلۓ تياری کرے اور نادان و عاجز وہ ہے جو اپنے آپ کو خواہشات نفس کے پيچھے لگاۓ رکھے اور اللہ تعالی سے بڑی بڑی آرزوئيں وابستہ کرے [سنن الترمذی وسنن ابن ماجہ بروايت شدادبن اوس ]
فوائد :
١ ۔ تقدير ايمان ۔
٢ ۔ نيک عمل کی کوشش اور برے کام سے رکنا تقدير پر ايمان کے منافی نہيں ہے ۔
٣ ۔ ثواب وجزاء انہيں اعمال پر ہیں جو بندوں کے اختيار ميں ہيں ۔
٤ ۔ کوئ بھی کام اللہ تعالی کی مشيت کے بغير روپذير نہيں ہو سکتا ۔
ختم شدہ