مفید پرہیز؟
حديث نمبر :71
بتاریخ : 12 / 13 ربیع الاٴول 1430ھ، م 10/09مارچ 2009
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا تحاسدوا ولا تناجشوا ولا تباغضوا ولا تدابروا ولا يبيع بعضكم على بيع بعض و كونوا عباد الله إخوانا ، المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يخذله ولا يحقره ، التقوى ههنا ، ويشير إلى صدره إلى ثلاث مرات، بحسب امرئ من الشر أن يحقر أخاه المسلم ، كل المسلم على المسلم حرام : دمه ، ماله و عرضه .
( صحيح مسلم : 2564 ،البر والصلة ، مسند أحمد : 2/277 )
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : تم ایک دوسرے پر حسد نہ کرو ، نہ خرید وفروخت میں بولی بڑھا کر ایک دوسرے کو دھوکہ دو ، نہ باہم بغض رکھو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو [ یعنی اعراض و بے رخی مت کرو ] اور نہ تمہارا یک دوسرے کے سودے پر سودا کرے ، اور اے اللہ کے بندو تم بھائی بھائی بن جاؤ ، [ کیونکہ ] مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس پر ظلم کرے ، نہ اسے حقیر گردانے اور نہ اس کو [ مدد کے وقت ] بے سہارا چھوڑے اور آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : تقوی یہاں [ دل میں ] ہے ، ایسا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین بار فرمایا : نیز آپ نے فرمایا : ایک شخص کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ، ہر مسلمان کا خون ، اس کا مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۔
{ صحیح مسلم ، مسند احمد }
تشریح : اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید میں ” انما المؤمنون اخوۃ ” “تمام مومنین بھائی بھائی ہیں” فرما کر تمام مسلمانوں میں ایک ایسا رابطہ قائم کردیا ہے جس کی وجہ سے ہر قسم کی خیر خواہی و نصیحت کو ان پر واجب اور ہر قسم کے ضرر دہی و نقصان رسانی کو ان پر حرام ٹھہرادیا ہے بلکہ ہر وہ چیز جو اس رابطے کو مضبوط کرے اس کا حکم اور ہر وہ چیز جو اس میں خلل پیدا کرے اس سے منع کردیا ہے ۔
زیر بحث حدیث انہیں اسلامی تعلیمات کی ایک کڑی ہے جس میں تقریبا ایک درزن ایسی چیزوں سے روکا گیا ہے جو بھائی چارگی کے رشتے میں خلل انداز ہوتی اور اس اسلامی رابطے کو توڑتی اور کمزور کرتی ہیں ، نیز بعض ایسے کاموں کا حکم دیا گیا ہے جو اس رشتے کو تقویت دیتے اور اس میں پختگی پیدا کرتے ہیں ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں جن چیزوں سے منع فرمایا ہے وہ یہ ہیں :
حسد : حسد کا معنی یہ ہے کہ اگر اللہ تبارک وتعالی نے اپنے کسی بندے کو کسی نعمت سے نوازا ہے تو اس نعمت کو دیکھ کر دل میں کڑھے اور یہ تمنا کرے کہ کاشکہ اس شخص کو یہ نعمت نہ ملتی ، جب کہ یہ ایک بری عادت، حسد کرنے والے کے بدباطن اور اللہ کی تقسیم پر معترض ہونے کی دلیل ہے ، نیز بھائی چارگی کے رشتے کے منافی اور آپس میں اختلاف کا بہت بڑا سبب ہے ۔
بولی بڑھانا : مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کی نیلامی ہورہی ہے ، ہم بھی وہاں پر موجود ہیں ، لوگ بولی لگارہے ہیں ، ہمارا مقصد اس سودے کو خریدنا نہیں بلکہ صرف بدنیتی یا بائع سے چند ٹکے کے فائدے کے لئے اس کی قیمت میں اضافہ کرتے جارہے ہیں ، ظاہر بات ہے کہ یہ سراسر دھوکہ ، فریب کاری اور اپنے بھائی کی خیر خواہی کے خلاف ہے ، اور جب ہمارے بھائی کو ہماری یہ حرکت معلوم ہوجائے گی تو وہ ہم سے بدظن ہوگا ، لہذا اسے بھی اسلام نے ناجائز و حرام قرار دیا ہے ۔
باہم بغض : بغض نام ہے دل کی اس کیفیت کا جس سے کسی کے بارے میں محبت ، رحمت اور خیرخواہی کے جذبہ کے برخلاف عداوت ، دشمنی ، نفرت و کراہیت کا جذبہ ہو ، اور ظاہر ہے کہ یہ امر اسلامی اخوت کے منافی اور معاشرے میں بگاڑ کا بہت بڑا سبب ہے ، لہذا اسلام نے اسے حرام قرار دیا ہے بشرطیکہ اس بغض کا کوئی شرعی سبب نہ ہو لیکن اگر اس کا کوئی شرعی سبب ہے جیسے اسلام کے دعوی کے بعد شراب پینا ، فسق و فجور کے کام کرنا وغیرہ تو ایسے شخص سے اس عمل کی وجہ سے بغض و نفرت رکھی جائے گی ، خواہ وہ اپنے قریب سے قریب ترین شخص ہی کیوں نہ ہوں ۔
پیٹھ پھیرنا : علماء نے پیٹھ پھیرنے کی متعدد شکلیں بتلائی ہیں :
[1] لوگ کسی حلقہٴ درس میں بیٹھے ہوئے ہیں ، ایک شخص آکر لوگوں کے سامنے ان کی طرف پیٹھ کرکے بیٹھ جاتا ہے حالانکہ دائیں بائیں بیٹھنے کی گنجائش ہے ، ظاہر بات ہے کہ کوئی بھی شخص اسے پسند نہ کرے گا ۔
[2] ایک شخص اپنے کسی بھائی سے ناراض ہے وہ اس سے ملنا چاہتا ہے لیکن جب کبھی بھی آمنا سامنا ہوتا ہے یہ شخص اسے چھوڑ کر دوسری طرف رخ کرکے چلا جاتا ہے یا منہ پھیر کر بیٹھ جاتا ہے ۔
[3] ایک شخص آپ سے کوئی بات کررہا ہے لیکن آپ پوری بات سننے کے بجائے اس کی بات کاٹ کر اپنی بات کرتے ہیں اور جب وہ اپنی بات کرنا چاہتا ہے تو اسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔
[4] آپ کسی شخص سے کسی بات پر ناراض ہیں ، وہ آپ سے معذرت کرنا چاہتا ہے جب وہ آپ کے یہاں جاتا ہے تو آپ اس کے لئے اپنا دروازہ نہیں کھولتے اور جب ٹیلی فون پر بات کرنا چاہتا ہے تو اس کی آواز سن کر رسیور رکھ دیتے ہیں ۔
[5] ایک مسلمان بھائی سے آپ صرف اس لئے نہیں ملتے کہ کسی بارے میں آپ سے مختلف رائے رکھتا ہے اور آپ کی رائے سے متفق نہیں ہوتا ، وغیرہ ۔ ۔۔
{ دیکھئے شرح ابن عثیمین ، ریاض الصالحین : 1/722 }
سودے پر سودا : ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی چیز کو خریدنا چاہتا ہے اور مالک سے اس کی بات چیت بھی چل رہی ہے لیکن ایک شخص درمیان میں آکر اس سے زیادہ قیمت دے کر یا کسی اور ذریعہ سے اس چیز کو خود خریدلیتا ہے ، چونکہ یہ چیز بھی اسلامی بھائی چارگی کے خلاف ہے اس لئے ناجائز وحرام ہے ، البتہ اگر پہلا شخص اپنا ارادہ ترک کردیتا ہے ، یا مالک نے اس سامان کو نیلامی میں رکھا ہے تو اس صورت میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ غور کریں کہ مذکورہ پانچوں کام ایسے ہیں جن سے آپس میں عداوت پیدا ہونے یا اس کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہے اور یہ کام حقیقی اخوت کے خلاف ہیں ، اس لئے اسلام نے ان سے روکا ہے یہی وجہ ہے کہ ان چیزوں کے ذکر کے فورا بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
اللہ کے بندو ! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو ۔
{ نوٹ : حدیث میں مذکور بقیہ امور کی شرح اگلے ہفتہ ، ان شاء اللہ }
ختم شدہ