آب حیات
حديث نمبر :72
بتاریخ : 19 / 20 ربیع الاٴول 1430ھ، م 17/16مارچ 2009
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن مسعود رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَصَابَ أَحَدًا قَطُّ هَمٌّ وَلَا حَزَنٌ فَقَالَ:
اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ نَاصِيَتِي بِيَدِكَ مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي وَنُورَ صَدْرِي وَجِلَاءَ حُزْنِي وَذَهَابَ هَمِّي
إِلَّا أَذْهَبَ اللَّهُ هَمَّهُ وَحُزْنَهُ وَأَبْدَلَهُ مَكَانَهُ فَرَجًا،قَالَ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا نَتَعَلَّمُهَا فَقَالَ بَلَى يَنْبَغِي لِمَنْ سَمِعَهَا أَنْ يَتَعَلَّمَهَا.
( مسند أحمد : 1/381 ، صحيح ابن حبان : 2968/297 ، الحاكم : 1/509 )
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جس کسی کو کوئی فکر یا غم لاحق ہو اور وہ اس دعا کو پڑھ لے تو اللہ تعالی اس کی فکر کو دور کردے گا اور غم کو خوشی میں بدل دے گا [ وہ دعا یہ ہے ] اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں ، تیرے بندے کا بیٹا ہوں ، تیری بندی کا بیٹا ہوں ، میری پییشانی تیرے ہاتھ ہے ، میرے بارے میں تیرا حکم نافذ ہے اور میرے بارے تیرا فیصلہ عین عدل ہے اے اللہ میں تیرے ہر اس نام کے وسیلہ سے مانگتا ہوں جس سے تو نے اپنے آپ کو موسوم کیا ہے ، یا اپنی کسی مخلوق کو سکھایا ہے ، یا اپنی کتاب میں نازل کیا ہے ، یا اپنے خاص علم غیب میں اسے مخفی رکھا ہے کہ آپ قرآن کریم کو میرے دلوں کی بہار بنادیں ، میرے سینے کا نور بنادیں ، میرے سے غم کو ہٹانے والا بنادیں اور میری فکر کو دور کرنے والا بنادیں ،
یہ سن کر صحابہ نے آپ سے سوال کیا : اے اللہ کے رسول ! تو کیا اسے ہم سیکھ نہ لیں ؟ آپ نے فرمایا جو شخص بھی اسے سنے اسے چاہئے کہ اسے سیکھ لے [ کیونکہ وہ شخص بڑے دھوکہ میں ہے جو اس سے غفلت برتے ] { مسند احمد ، صحیح ابن حبان ، مستدرک حاکم وغیرہ }
تشریح : یہ دنیا دار امتحان و آزمائش ہے ، اس دنیا میں ایک انسان کو غم و فکر ، قلق و خوف اور اس قسم کی دیگر بہت سی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان حالات میں ایک بندہٴمومن کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے منعم و مالک اور قادر مطلق کی طرف رجوع کرے ، زیر بحث حدیث میں انہیں پریشانیوں کا ایک کامیاب علاج اور نادر تحفہٴ نبوی مذکور ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے غم و فکر سے نجات پانے کی ایک ایسی دعا سکھلائی ہے جس کا ایک ایک کلمہ عبدیت ، عجز اور لاچاری کی مکمل تصویر ہے ، چنانچہ کسی فکر وغم میں مبتلا بندہ اپنے والدین حتی کہ آباؤ اجداد کی مکمل عبدیت کا اظہار کرتا ہے کہ اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں اور میرے ماں باپ بھی تیرے بندے ہیں ،
یعنی میں تیرا پشتینی بندہ ہوں ، تو میرا مالک و رب ہے اور میرے ماں باپ کا بھی مالک ورب ہے اور میں ہمہ تن تیرے قبضہٴقدرت میں ہوں ، میرے بارے میں تیر ا جوبھی فیصلہ ہے وہ بر حق ہے ، اور میرے بارے میں تو جو بھی فیصلہ کرے گا وہ نافذ ہوکر رہے گا ، اسے ٹالنے والا کوئی نہیں ہے اور مجھے یہ اقرار ہے کہ میرے بارے میں تیرا ہر حکم و امر عدل و انصاف پر مبنی ہے اس کے بارے میں مجھے کسی بھی چوں و چرا کی گنجائش نہیں ہے ۔
اس کامل اظہار عاجزی و مسکنت کے بعد اور تو حید الوہیت و الوہیت کے اقرار کے بعد بندہ اللہ تعالی کے اسماء و صفات پر ایمان کا اقرار کرتے ہوئے انہیں کو وسیلہ بنا کر اپنے غم و فکر کا علاج چاہتا ہے ، چنانچہ بندہ کہتا ہے : اے اللہ میں آپ سے آپ ہی کے ان پاک ناموں کے وسیلہ سے مانگتا ہوں جن سے آپ نے اپنےآپ کو موسوم کیا ہے اور آپ کی کتابوں میں بتائے گئے ہیں ، یا وہ پاک نام جو صرف آپ کے علم میں ہیں جنہیں آپ کے سوا کوئی نہیں جانتا اے اللہ ! وہ قرآن پاک جو آپ کا کلام ہے ، آپ ہی سے نکلا ہے اس کی فہم و تلاوت سے زیادہ آپ کا قرب کسی اور ذریعہ سے حاصل نہیں ہوسکتا ، اسے میرے دلوں کی بہار بنادیں ، اس کی برکت سے میری پریشانیوں اور غموں کو دور کردیں ، اے میرے رب جس طرح زمین خشک رہتی ہے ، ہر طرف ویرانی کا عالم رہتا ہے چھوٹے بڑے درخت مرجھائے رہتے ہیں ، پھلوں و پھولوں کے بیچ سورج کی تپش سے بچنے کے لئے زمین کی تاریکی میں اپنے منہ کو چھپائے رہتے ہیں ، لیکن جیسے ہی آپ کے حکم سے بارش آتی ہے سارے ماحول پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور مرجھائے ہوئے درخت لہلہا اٹھتے ہیں ، مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے ، اس طرح اس قرآن پاک کو بھی میرے مرجھائے دل کی بہار بنادے ، میرے مریض دل کو اس سے شفا عطا فرما ، اس کے پڑھنے کو میرا محبوب مشغلہ بنادے اور اس کی برکت سے میری ہر مصیبت و پریشانی اور قلق و اضطراب کو دور کردے ۔ { آمین }
فوائد :
1- غم و فکر اللہ تعالی کی طرف سے ہیں اور انہیں دور کرنے کی قوت بھی اسی کے پاس ہے ۔
2- توحید کا اقرار اور اس پر قیام رب کی رضامندی اور رحمت کا سبب ہے ۔
3- اللہ تعالی کے نام صرف نناونے ہی نہیں ہیں بلکہ ان کی تعداد صرف اللہ تعالی کو معلوم ہے ۔
4- حصول مطلوب کا بہترین وسیلہ اللہ تعالی کے پاک نام ہیں ۔
5- قرآن کی تلاوت ، اس پر غور و فکر اور اس کا اہتمام فکر و پریشانی کا بہترین علاج ہے ۔
ختم شدہ