ایک خدشہ
حديث نمبر :73
بتاریخ : 03 / 04 ربیع الثانی 1430ھ، م 31/30مارچ 2009
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا
( صحيح البخاري : 1344، الجنائز / صحيح مسلم : 2296، الفضائل )
ترجمہ : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم [ اپنی زندگی کے آخری ایام میں ] ایک دن باہر تشریف لائے اور جس طرح میت پر نماز پڑھتے ہیں ویسے ہی غزوہ ٴاحد کے شہداءپر نماز پڑھی پھر منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا : میں تمہارا پیش رو اور امیر سامان ہوں ، اور میں تم پر گواہ رہوں گا اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں ، اور مجھے زمین کے خزانے کی یا زمین کی چابیاں عطا کی گئی ہیں ، اور مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک کروگے لیکن مجھے یہ اندیشہ ضرور ہے کہ تم اس دنیا میں خوب رغبت کروگے ۔
[ صحیح بخاری و صحیح مسلم ]
تشریح : ہادئ برحق ، رحمت عالم ، شفقت مجسم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فریضہٴ رسالت کی ادائیگی ، امت کی خیرخواہی کا پورا حق ادا کردیا ، اور جو امانت آپ کے سپرد کی گئی تھی اسے احسن و اکمل طور پر ادا کیا ، خواہ وہ امانت تعلیم دین کے سلسلے میں ہو ، تزکیہٴنفس کے بارے میں ہو یا امت کو مستقبل میں پیش آنے والے خطرات سے تعلق رکھتی ہو، حتی کہ امت پر رحمت ، ان کی کامیابی اور ان کے جہنم سے نجات کے لئے دعا کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی ، زیر بحث حدیث جو رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کے بالکل آخری خطبوں میں سے ایک خطبہ پر مشتمل ہے ، اس کا واضح ثبوت ہے جس کا مختصر بیان درج ذیل ہے :
[۱] چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عام روایات کے مطابق معرکہٴاحد کے شہداء کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی { صحیح بخاری : 1343 } اس لئے اس دنیا سے رخصت ہونے سے قبل امت کے ان ستاروں کو اپنی دعاؤں کا تحفہ پیش کرنا چاہا اور ان کے دفن کے آٹھ سال بعد ان پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی تاکہ وہ مبارک گروہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ان خصوصی دعاؤں سے محروم نہ رہے ۔
[۲] صحابہ اور ان کے بعد آنے والوں کے لئے یہ بشارت کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا سے اگرچہ چلے جارہے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگوں سے آپ کا رشتہ ٹوٹ گیا ؟ نہیں ! بلکہ آپ لوگوں سے قبل میر سامان کے طور پر جارہے ہیں اور جو کچھ صحابہ نے آپ کی خدمت دین کی طرف سے دفاع اور تبلیغ کے لئے کوشش کی ہے اس پر گواہی دیں گے ، گویا اس طرح امت کو ایک پیغام بھی ہے کہ جس دین پر اللہ کے رسول نےانہیں چھوڑا ہے اس پر عمل اور اس کی تبلیغ کے لئے کوشاں رہیں ۔
[۳] ویسے تو اللہ کے رسول ” فداہ ابی و امی ” پورے میدان حشر میں امت کے لئے میر ساماں ہوں گے ، لیکن حوض پر خاص کر آپ کا وجود ایک بڑی رحمت ہوگا وہ حوض جس کا مشاہدہ بطور کشف کے اللہ تبارک وتعالی نے اپنے نبی کو کرایا وہ حوض جس کی پہنائی شام کے مقام ایلہ سے لے کے حجاز کے مقام جحفہ [ رابغ ] تک ہے { صحیح مسلم : 2696 } لہذا اے امتی تجھے وہی کام کرنا چاہئے جو اس مقام تک پہنچائے اور ہر اس کام [ بدعت و شرک ] سے پرہیز کرنا چاہئے جو وہاں پہنچنے میں رکاوٹ بنے ۔
[۴] پھر اس حدیث میں امت کو یہ خوشخبری دی کہ ابھی تمہارے اوپر اگرچہ فقر و فاقہ کا دور ہے لیکن قریب ہی ایک وقت آنے والا ہے کہ تمہارے پاس قیصر و کسری اور دنیا کے خزانے بطور مال غنیمت کھنچ کر آئیں گے اور یہ تمام ممالک تم لوگ فتح کروگے ۔
[۵] لیکن اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے امت کو اس امر سے بھی متنبہ کیا کہ جب یہ خزانے تمہارے پاس آجائیں تو ایسا نہ کرنا کہ مال جمع کرنے اور اس میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مشغول ہوجاؤ ، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو تمہارے درمیان باہم بغض و حسد کی بیماری پھیل جائے گی جس کے نتیجے میں ایک دوسرے سے عداوت و نفرت پھر لڑائی جھگڑا اور بہت سے اختلافات پیدا ہوں گے اور پہلی قوموں کی طرح تم بھی ہلاک و برباد ہوجاؤ گے [ افسوس کہ آج امت کا بہت بڑا حصہ حتی کہ علم دین کے حاملین بھی اسی میں مبتلا ہیں ] ۔
[۶] یہی وہ امر ہے جس کا خوف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی امت پر عموما اور اپنے صحابہ پر خصوصا سب سے زیادہ تھا حتی کہ اس کا خوف اس امت پر شرک سے بھی زیادہ تھا ، کیونکہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دین کو اچھی طرح سے سمجھ لیا تھا ، توحید کے مسائل کو ضبط کرلیا تھا اور جاہلیت اولی ان کے پاس سے اپنا سارا سازو سامان لے کر رخصت ہوچکی تھی ، اس لئے اب ان کے شرک میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ تھا ، لیکن اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ صحابہ کے بعدکے افراد امت بھی شرک میں مبتلا نہ ہونگے ۔
نوٹ : ہمارے بعض کلمہ گو بھائیوں نے اس حدیث سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اس امت میں قیامت تک شرک نہیں پیدا ہو سکتا ، حالانکہ یہ سمجھ علماء کی سمجھ کے خلاف ہے بلکہ آج تک علماء نے اس سے یہی سمجھا ہے کہ اس کا تعلق یا تو پوری امت سے ہے یعنی پوری امت شرک کا ارتکاب نہیں کرے گی کیونکہ بعض حدیثوں میں اس کی صراحت ہے کہ اس امت کے افراد شرک میں مبتلا ہوں گے ، یا پھر اس سے مراد صحابہ کرام اور قرون اولی کے مسلمان ہیں ، واضح رہے کہ اس امت کے بعض افراد کا شرک میں مبتلا ہونا بہت سی حدیثوں سے ثابت ہے ، اگلے درس کا انتظار کیجئے فوائد :
۱- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے ساتھ رحمت و خیر خواہی ۔
۲-حوض نبوی کا ثبوت ۔
۳- غائبانہ نماز جنازہ کا ثبوت ۔
4- دنیا میں مشغولیت ہلاکت و بربادی ہے ۔
ختم شدہ