جلدی کی حکمت
حديث نمبر :78
بتاریخ : 09 / 10 جمادی الاول1430ھ، م 05/04اپریل 2009
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : أسرعوا بالجنازة فإن تك صالحة فخير تقدمونها إليه وإن تك سوى ذلك فشر تضعونه عن رقابكم .
( صحيح البخاري : 1315 ، الجنائز / صحيح مسلم : 944 ، الجنائز )
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جنازہ لے جانے میں جلدی کرو ، اس لئے کہ اگر وہ نیک ہے تو اسے تم بھلائی ہی کی طرف بڑھاو گے اور اگر اس کے برعکس ہے تو وہ ایک برائی ہے جسے اپنی گردنوں سے اتار کر رکھ دو گے ۔
[ صحیح بخاری و صحیح مسلم ]
تشریح : ایک مسلمان کا حق دوسرے مسلمانوں پر اس کی زندگی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وفات کے بعد بھی اس کے حقوق اپنے عزیز و اقارب اور بھائیوں پر باقی رہتے ہیں ، یہ مذہب اسلام کی بہت بڑی خوبی ہے کہ انسانوں کے تعلقات کو صرف اسی دنیا تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیم دی ہے کہ اپنے عزیز و اقارب ، دوست و احباب اور ساتھیوں کے ساتھ ان کی وفات کے بعد بھی حسن سلوک کا برتاو کریں ، زیر بحث حدیث میں اپنے مردہ بھائی کے انہیں بعض حقوق کی طرف رہنمائی کی گئی ہے ۔
0- میت کو نہلانے ، کفنانے ، قبرستان لے جانے اور دفنانے میں تاخیر سے کام نہ لیا جائے بلکہ حتی الامکان میت کے ان حقوق کی ادائیگی میں جلد بازی کی جائے ، ہاں! اگر تاخیر میں کوئی دینی و دنیوی مصلحت ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے : دل کا دورہ پڑنے سے کسی کی اچانک موت ہوگئی تو اس میں اتنی تاخیر ضرور کرنی چاہئے کہ حقیقی موت کا یقین ہوجائے ، یا معمولی تاخیر اس لئے کی جاسکتی ہے کہ اس پر جنازہ پڑھنے والوں کی کثرت ہوجائے ، یا اس کا کوئی عزیز و قرابت دار کچھ دور ہے کہ جس کے پہنچنے میں قدرے تاخیر ہے وغیرہ وغیرہ ، لیکن واضح رہے کہ اس تاخیر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میت کو دو تین دنوں تک کولڈ اسٹور میں رہنے دیا جائے ۔، حدیث میں اس کی علت یہ بیان کی گئی ہے کہ کوئی بھی میت دو حالتوں سے خالی نہ ہوگی ، یا تو وہ نیک و صالح شخص رہا ہوگا یا پھر شرعی معاملات میں کوتاہ اور حدود الہی کو پار کرنے والا اور توڑنے والا رہا ہوگا ، اب اگر پہلی صورت ہے تو اس کے کفنانے دفنانے پر جس قدر جلدبازی سے کام لیا جائے گا اسی قدر اس کے ساتھ خیر و بھلائی کا معاملہ ہوگا کیونکہ آگے کی منزل اس کے لئے بہتر اور آرام دہ ہے اور اگر وہ شخص اس کے برعکس تھا تو وہ منحوس اور گندی چیز ہے جس کا زندوں کے درمیان باقی رہنا خرابی سے خالی نہیں ہے ۔
1- میت کے اوپر جو مالی حقوق ہیں جیسے قرض وغیرہ ان کی ادائیگی میں بھی جلدی کی جائے کیونکہ جب میت کے کفنانے دفنانے میں جلدی کرنے کا حکم ہے تو اس کے قرض وغیرہ کی ادائیگی میں جلدی کرنے کا بدرجہء اولی حکم ہوگا کیونکہ میت عالم برزخ میں اس کا زیادہ محتاج ہے ، جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے لٹکی رہتی ہے یہاں تک کہ اسے ادا کردیا جائے ، [ سنن الترمذی ، بروایت ابو ہریرہ ] یعنی اگر میت نیک ہے تو بھی اس کی نجات کا فیصلہ اس وقت تک نہیں کیا جاتا جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ کردیا جائے ۔
2- میت کے لئے دعائے مغفرت کی جائے ، کیونکہ وہ اب ہماری مدد کا زیادہ محتاج اور ہماری دعاوں کا زیادہ ضرورت مند ہے خاص کر دفن کے فورا بعد دعاو استغفار میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے ، کیونکہ یہ وہ پہلی منزل ہے جہاں اس کا امتحان لیا جائے گا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب آپ دفن سے فارغ ہوتے تو قبر پر ٹھہر جاتے اور فرماتے : اپنے بھائی کے لئے بخشش مانگو اور منکر و نکیر کے سوال پر ثابت قدمی کی دعا کرو ، کیونکہ اب اس سے سوال کیا جائے گا ۔ [ سنن ابوداود ، بروایت عثمان بن عفان ] ۔
فوائد :
v اپنے مسلمان بھائی کی فکر کرنی چاہئے اور اس کے معاملات کو اہتمام کی نظر سے دیکھنا چاہئے خواہ ہمارا بھائی مردہ ہو یا زندہ ۔
v برائی اور برے لوگوں سے حتی الامکان دوری اور پہلی فرصت میں ان سے چھٹکا را حاصل کرنا چاہئے ۔
v قبر میں آرام و آرائش اور عذاب و سرزنش برحق اور اہل سنت و جماعت کے عقیدے میں داخل ہے ، نیکوں کی قبر ان کے لئے جنت کی کیاری اور بروں کی قبر ان کے لئے جہنم کا گڑھا ہے ۔
v آخرت میں نجات ایمان و عمل صالح پر موقوف اور بے ایمانی اور بد اعمالی ہلاکت و بربادی کا سبب ہے ، کسی بڑے سے تعلق و قرابت داری وہاں کسی کام نہ آئے گی ۔
جنازے کی دعا
“اللَّهم اغفر لِحَيِّنَا وَميِّتِنا ، وَصَغيرنا وَكَبيرِنَا ، وذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا ، وشَاهِدِنا وَغائِبنَا . اللَّهُمَّ منْ أَحْيَيْتَه منَّا فأَحْيِه على الإسْلامِ ، وَمَنْ توَفَّيْتَه منَّا فَتَوَفَّهُ عَلى الإيمانِ ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنا أَجْرَهُ ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ ” [رواه الترمذي]
” اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ ، وارْحمْهُ ، وعافِهِ ، واعْفُ عنْهُ ، وَأَكرِمْ نزُلَهُ ، وَوسِّعْ مُدْخَلَهُ واغْسِلْهُ بِالماءِ والثَّلْجِ والْبرَدِ ، ونَقِّه منَ الخَـطَايَا، كما نَقَّيْتَ الثَّوب الأبْيَضَ منَ الدَّنَس ، وَأَبْدِلْهُ دارا خيراً مِنْ دَارِه ، وَأَهْلاً خَيّراً منْ أهْلِهِ، وزَوْجاً خَيْراً منْ زَوْجِهِ ، وأدْخِلْه الجنَّةَ ، وَأَعِذْه منْ عَذَابِ القَبْرِ ، وَمِنْ عَذَابِ النَّار ” [رواه مسلم ]
ختم شدہ