حق اور جھوٹی قسم
حديث نمبر :79
بتاریخ : 16 / 17 جمادی الاول1430ھ، م 12/11اپریل 2009
وعن أبي أمامة الحارثي – رضي الله تعالى عنه- أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من اقتطع حق امرئ مسلم بيمينه فقد أوجب الله له النار وحرم عليه الجنة فقال له رجل وإن كان شيئا يسير يا رسول الله ؟ قال وإن كان قضيبا من أراك .
( صحيح مسلم : 137 ، الإيمان / سنن النسائي : 8/246 / سنن ابن ماجه : 2324 )
ترجمہ : حضرت ابو امامہ حارثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی مسلمان کا حق جھوٹی قسم کھا کر ناحق لے لیا تو یقینا اللہ تعالی نے اس پر جہنم کی آگ کو واجب اور جنت کو حرام کردیا ہے ، ایک شخص نے سوال کیا : اے اللہ کے رسول ! چاہے وہ تھوڑی سی چیز ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر چہ پیلو کے درخت کی ایک ٹہنی ہی ہو ۔
[ صحیح مسلم ، سنن النسائی ، سنن ابن ماجہ ]
تشریح : اللہ تبارک وتعالی نے مسلمان کےما ل ، نفس اور آبرو کو محترم قرار دیا ہے اور بغیر حق کے اس سے تعرض کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ٹھہرایا ہے چنانچہ ایک صحیح حدیث میں ارشاد نبوی ہے کہ ہر مسلمان کا مال ، اس کی جان اور اس کی آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے [ صحیح مسلم بروایت ابو ہریرہ ] مال کی حرمت میں چوری کرنا ، زبردستی چھین لینا ، اس کی رضا کے بغیر اس کی کوئی چیز لینا خواہ بطور مذاق ہی کیوں نہ ہو اور امانت میں خیانت کرنا وغیرہ داخل ہے ، اور آبرو ریزی میں اس کی غیبت ، گالی گلوچ ، عیب جوئی ، تہمت طرازی اور اس کے ساتھ ہر قسم کی برائی حتی کہ اس کے اہل وعیال کی آبرو ریزی بھی داخل ہے ، اور اس کے خون کی حرمت میں اس کا قتل ، مارپیٹ اور کسی بھی قسم کی جسمانی اذیت داخل ہے ، مومن کی یہ حرمت اس قدر اہم کہ کسی بھی مومن کا جنت میں داخلہ اس وقت تک ممکن نہ ہوگا جب تک اس پر کسی دوسرے مومن بلکہ کسی کافر کا کوئی حق باقی ہے ۔
زیر بحث حدیث میں اس چیز کی اہمیت ایک بڑے خوفناک انداز میں بیان کی گئی ہے ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی مسلمان کا کوئی بھی حق قسم کھا کر حاصل کرلیتا ہے خواہ وہ حق مال کی شکل میں ہو یا کسی اور شکل میں حتی کہ اگر کوئی شخص کسی کی گندگی جس سے وہ بطور کھاد کے مستفید ہوتا ہے اسے ناحق لے لیتا ہے یا کوئی کسی کے پاس موجود مردار کا چمڑا جس سے وہ مستفید ہوتا ہے اس کی رضا مندی کے بغیر لے لیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی اس پر جہنم کی آگ کو واجب :::::::
اور جنت کی نعمتوں کو حرام کردیتا ہے ، جہنم میں اس کا یہ داخلہ اور جنت سے اس کی یہ دوری دائمی اور ابدی بھی ہوسکتی ہے اور وقتی اور محدود مدت کے لئے بھی ، کیونکہ اگر کوئی شخص کسی کا حق اپنے لئے جائز سمجھتے ہوئے لے لے رہا ہے تو گویا اللہ تعالی کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال سمجھ کر کفر کا ارتکاب کررہا ہے ، لہذا وہ دائمی طور پر جہنم میں رہنے کا سامان کررہا ہے ،کیونکہ حرام چیز کو حرام تسلیم نہ کرنا کفر ہے ، اور اگر وہ شخص جو کسی کا حق ناحق لے رہا ہے لیکن اسے اپنے لئے حلال نہیں سمجھ رہا ہے بلکہ صرف لالچ و حرص کی وجہ سے لے رہا ہے تو وہ شخص جہنم میں ہمیشہ ہمیش تو نہیں رہے گا ، البتہ اس کا جنت میں جانا اس وقت تک ممکن نہ ہوگا جب تک اس دنیا یا آخرت میں اپنے بھائی کا حق ادا نہ کردے ، یا پھر اپنے اس جرم کے بقدر جہنم کی سزا کاٹے ۔ [ اعاذنا اللہ ] ۔
صحابہ کرام نے یہ سخت وعید سنی تو پریشان ہوگئے اور ان میں سے ایک صحابی نے سوال کیا : اے اللہ کے رسول ! وہ چیز جو ناحق لی گئی ہے کوئی معمولی چیزہو پھر بھی وہ شخص اس بڑی وعید کا مستحق ٹھہرے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کلام اول کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا : اگر کوئی شخص کسی مسلمان سےناحق ایک پیلو کی مسواک لے لیتا ہے تو وہ اس وعید کا مستحق ہے ۔
نوٹ : علماء کہتے ہیں کہ اس حدیث میں مسلمان کا حق بغیر وجہ جواز کے لینے کا ذکر ہے ، اس کا یہ مطلب قطعا نہیں ہے کہ غیر مسلم کا حق غصب کیا جاسکتا ہے ، اس کی عزت پامال کی جاسکتی ہے اور اس کا ناحق خون کیا جاسکتا ہے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس وعید میں ہر وہ شخص داخل ہے جو کسی کا حق خواہ وہ حق مال سے متعلق ہے ، یا جان وعزت سے متعلق اور مسلم کا حق ہو یا کافر کا حق وہ اس وعید کا مستحق ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے کہ جس نے کسی صاحب عہد [ یا ذمی ] کو نا حق قتل کیا جنت اس پر حرام ہے ۔
[ سنن ابوداود و مسند احمد ، بروایت ابو بکر ] ۔
فوائد :
0- حقوق العباد کی اہمیت اور ان میں کوتاہی کرنے پر سخت وعید ۔
1- مسلمان کا حق اور اس کے حقوق کی عظمت اللہ تعالی کے نزدیک بہت بڑی ہے ۔
2- جھوٹی قسم کھانے کی مذمت اور اس پر سخت عذاب ۔
3- نا حق لی گئی چیز لوگوں کی نظر میں معمولی ہی کیوں نہ ہو اللہ تعالی کے نزدیک معمولی نہیں ہوتی ۔
4- حقوق العباد میں غیر مسلم کے حقوق بھی شامل ہیں۔
5- کبھی کسی درس میں کوئی اشکال آجائے تو فوری سوال کرکے دور کرلینا چاہئے ۔
ختم شدہ