ذرا سنبھل کے
حديث نمبر :80
بتاریخ : 23 / 24 جمادی الاول1430ھ، م 19/18اپریل 2009
عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا قال الرجل لأخيه ، يا كافر فقد باء بها أحدهما ، فإن كان كما قال وإلا رجعت عليه .
( صحيح البخاري : 614 ، الأدب / صحيح مسلم : 60 ، الإيمان )
ترجمہ :حضر ت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب آدمی اپنے مسلمان بھائی کو اے کافر کہتا ہے تو ان دونوں میں سے کوئی ایک اس کفر کی طرف ضرور لوٹتا ہے ، اگر وہ واقعی ایسا ہوا جیسا کہ اس نے کہا تو درست ورنہ وہ کفر اسی کی طرف لوٹ آئے گا ۔
[ صحیح بخاری ومسلم ]
تشریح : اللہ تبارک نے متعدد اعتبار سے مسلم و کافر میں فرق کیا ہے چنانچہ کافر کے ساتھ موالات کو حرام اور مسلمان کے ساتھ موالات کو واجب ٹھہرایا ہے ، کافر کے ساتھ مناکحت و مساکنت کو ناجائز اور مسلمان کے ساتھ مناکحت و مساکنت کو مشروع قرار دیا ہے وغیرہ وغیرہ ، اس لئے ضروری ہے کہ کافر و مسلم کے فرق کو ملحوظ رکھا جائے تاکہ ہر ایک کو اس کے حقوق دئے جائیں اور ہر ایک کو اس کے مقام پر رکھا جائے ، بنا بریں اگر کوئی شخص کسی کو کافر کہتا ہے تو گویا اسے مسلمانوں کے حقوق سے محروم رکھ دیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی شخص کامسلمان ہونا ثابت ہو جارہا ہے اس معنی میں کہ وہ شہادتین کا اقرار کررہا ہے ، دیگر ارکان اسلام کے وجوب العمل ہونے کو تسلیم کررہا ہے ، ارکان ایمان کو مان رہا ہے تو اسے کافر کہنے کی سخت وعید آئی ہے یہاں تک کہ اس سے کسی ایسے قول و فعل کا صدور ہو جو قرآن و حدیث کی رو سے کفر ہو ، اس وقت بھی احتیاط کا یہ پہلو سامنے رکھا جائے گا کہ کیا اس شخص پر کفر کا حکم لگنے میں کوئی امر مانع تو نہیں ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی عمل کفر کا ارتکاب کرے وہ کافر بھی ہوجائے ، بہت ممکن ہے کہ کوئی چیز اس پر یہ حکم لگنے میں مانع ہو ۔
زیر بحث حدیث میں امت کو اسی چیز سے متنبہ کیا ہے بلکہ یہی حدیث کچھ الفاظ کے رد و بدل کے ساتھ مختلف صحابہ سے مروی ہے
[ صحیح الترغیب و الترہیب : ۳/55 ] ۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنے بھائی کو جس کا مسلمان ہونا ثابت ہے کفر سے متہم کررہا ہے اور اس پر کفر کا حکم لگا رہا ہے تو اس کی دو صورت ہے ، اولا تو یہ کہ جس پر کفر کا حکم لگ رہا ہے وہ حقیقت میں کفر کا مرتکب ہو رہا ہے ، اور اس کے سامنے جہالت ، تقلید اور تاویل وغیرہ کا کوئی عذر نہیں ہے تو ایسا شخص یقینا کافر اور اسلامی حقوق سے محروم ہے ،
ثانیا کفر کا حکم لگانے والا شخص اگر جلد بازی سے کام لے رہا ہے ، وہ کفر مطلق و کفر معین کے فرق کو نہیں سمجھتا اور وہ علم میں اچھی دست رس بھی نہیں رکھتا ، بلکہ کسی سے ایک کفریہ فعل کا صدور دیکھا اور بغیر کچھ سوچے سمجھے اپنے بھائی پر کفر کا فتوی لگادیا اور کسی گہرے علم رکھنے والے اہل علم کی طرف رجوع نہیں کیا تو استکفیر کا گناہ خود اس کے اوپر ہے اور اگر بغیر وجہ جواز کے اپنے بھائی کے کافر ہونے کو حلال سمجھ رہا ہے تو وہ خود بھی کفر میں مبتلا ہورہا ہے ۔
{ عیاذ باللہ }
واضح رہے کہ اہل علم نے کفر مطلق اور کفر معین میں اس طرح فرق کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص سے کسی عمل کفر کا صدورہورہا ہے تو یہ تو کہا جائے گا کہ فلاں کام کفر اور فلاں کام کرنے والا شخص کافر ہے لیکن یہ نہیں کہا جائے گا کہ فلاں شخص کافر ہے کیونکہ اس کے پاس بعض ایسے عذر ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے یہ شخص معذور سمجھا جائے گا جیسے :
1- وہ شخص جاہل ہو اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ کام کفر ہے ۔
2- یہ کام کرنے پر وہ شخص مجبور ہو کہ اگر یہ کام نہیں کرتا تو اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑیں گے ،
3- وہ شخص اپنے اس کام کی کوئی ایسی تاویل و توجیہ کررہا ہو جسے وہ حق اور سچ سمجھ رہا ہو ،
4- وہ شخص کسی ایسے بڑے عالم کی تقلید میں یہ کام کررہا ہو جسے وہ حق پر سمجھ رہا ہے اور خود اپنے طور پر اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ،
5- اس شخص پر کفر کا حکم علم دین میں اچھی دست رس رکھنے والے اہل علم ہی لگا رہے ہوں ، ہر کس و ناکس کو یہ اختیار نہ دیا جائے گا ۔
فوائد :
ý مسلمان کی جان ، مال ، عزت ، دین وغیرہ محترم ہیں ،بغیر کسی واضح شرعی دلیل کے ان سے تعرض نہیں کیا جائے گا ۔
ý کسی پر کفر کا فتوی لگانا اور اسے مذہب سے خارج کردینا پختہ علم رکھنے والے علماء ہی کا کام ہے ۔
ý اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو بغیر علم اور بغیر دلیل کے کافر کہتا ہے تو اس کا وبال خود اسی پر ہے ۔
ý حقیقی مسلمان تو وہ ہے کہ جس کی زبان ، اس کے ہاتھ اور اس کے مکر سے مسلمانوں کی عزت محفوظ رہے ۔
ختم شدہ