ہفتہ واری دروس

اللہ تعالی سے دوستی کے اصول

حديث نمبر :83

بتاریخ : 15/16 جمادی الآخرہ1430ھ، م 09/08جون 2009

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : “إن الله قال: من عادى لي ولياً فقد آذنته بالحرب. وما تقرب إلى عبدي بشيء أحب إلي مما افترضت عليه. وما يزال عبدي يتقرب إليَّ بالنوافل حتى أحبه. فإذا أحببته كنت سمعه الذي يسمع به، وبصره الذي يبصر به، ويده التي يبطش بها، ورجله التي يمشي بها. ولئن سألني لأعطينَّه، ولئن استعاذني لأعيذنه. وما ترددت عن شيء أنا فاعله ترددي عن قبض نفس المؤمن: يكره الموت، وأكره مساءته. ”

( صحيح البخاري : 6502 ، الرقاق )
ترجمہ : حضر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی نے فرمایا کہ جس شخص نے میرے کسی ولی و دوست سے دشمنی کی ، میرااس کے ساتھ اعلان جنگ ہے ، اور میں نے جو چیزیں بندے پر فرض کی ہیں ان سے زیادہ مجھے کوئی چیز محبوب نہیں ہے جس سے وہ میرا قرب حاصل کرے ، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ، اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو [ اس کے نتیجے میں ] میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں ، اور اگر وہ کسی چیز سے میری پناہ چاہتا ہے تو میں اسے ضرور پناہ دیتا ہوں ، اور کسی چیز کے کرنے میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا تردد اس مومن کی روح قبض کرنے پر ہوتا ہے جو موت کو ناپسند کرتا ہے ، مجھے اسے غمگین کرنا نا پسند ہے ۔

تشریح : اللہ کے ولیوں اور دوستوں کی فضیلت اور ان کی صفتوں سے متعلق یہ ایک عظیم حدیث قدسی ہے جس پر غور کرنے کے بعد اللہ کے سچے ولیوں اور جھوٹے ولیوں کے درمیان بڑی آسانی سے فرق کیا جاسکتا ہے ۔

چنانچہ اس حدیث قدسی میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو شخص ہمارے کسی ولی سے دشمنی رکھتا ہے اور اس سے لڑائی کے درپے ہوتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ یہ بندہ ٔمومن اکیلا نہیں ہے بلکہ اس کی مدد کرنے والا اس کی طرف سے دفاع کرنے والا اور اس کی حفاظت کرنے والا خود اللہ قادر مطلق ہے یہ وہ اونچا مقام ہے جو اللہ کے ولیوں کو حاصل ہے لہذا ہر اللہ کا ولی اس بات کا حقدار ہے کہ اس فضل پر فخر محسوس کرے ۔

پھر اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے وہ ولی کون ہیں جنہیں یہ مقام حاصل ہے تو اللہ تعالی نے ان کی دوصفتوں کا ذکرفرمایا :

  1. وہ سب سے پہلے اپنے اوپر واجبی حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں ، وہ حقوق اللہ کے ہوں جیسے :نماز ، روزہ ، حج و زکاۃ ، بھلائی کا حکم دینا ، برائی سے روکنا اور جہاد فی سبیل اللہ وغیرہ یا بندوں کے حقوق ہوں ، حتی کہ حیوانوں اور دیگر مخلوقات کے حقوق میں بھی کوتاہی سے کام نہیں لیتے ، کیونکہ فرائض کی ادائیگی وہ سب سے اہم چیز ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی کی ولایت حاصل کی جاسکتی ہے ۔
  2. اللہ کے ولیوں کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ صرف فرائض کی ادائیگی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ فرائض کے ساتھ ساتھ فرائض ہی کے جنس سے جو نوافل ہیں ان کا بھی اہتمام کرتے ہیں کیونکہ انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم خواہ کتنی ہی کوشش کریں کما حقہ فرائض کو ادا نہیں کرسکتے لہذا ہمارے پاس کچھ نوافل بھی ہونا چاہئے جن کے ذریعہ اللہ تعالی ہم سے خوش ہو اور فرائض میں ہماری کوتاہی سے تجاوز فرمائے ۔

اب جب بندے اتنا کام کرلئے تو گویا اللہ کے محبوب اور ولی بن گئے پھر چونکہ فرائض کی ادئیگی ، اس میں کوتاہی کے احساس اور حتی الامکان اس کوتاہی کو پورا کرنے کی کوشش اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بندہ رضائے الہی کا طالب اور اس کی قرب جوئی کا خواہاں ہے اس لئے اللہ تعالی بھی اس کی یہ خواہش پوری کرتا ہے چنانچہ ان سے محبت کرنے لگتا ہے ، اپنے تک پہنچنے کا ہر راستہ ان کے لئے آسان کردیتا ہے ، ان کی تمام حرکات و سکنات کی اصلاح کردیتا ہے حتی کہ اس کے اعضاء کی نگرانی فرماتا ہے جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالی کی نافرمانی سے بچتے ہیں ، وہ اپنے کانوں سے وہی کچھ سنتے ، آنکھوں سے وہی کچھ دیکھتے اور اپنے ہاتھوں سے وہی کچھ پکڑتے ہیں جو اللہ کو پسند ہوتے ہیں ، وہ اپنے قدموں کو اسی طرف اٹھاتے ہیں جس طرف جانا رضائے الہی کا سبب ہوتا ہے ، اس لئے اللہ تعالی ان کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور ان کی طلب کو رد نہیں کرتا حتی کہ وہ لوگ اللہ تعالی کے اس قدر محبوب بن جاتے ہیں کہ اللہ تعالی انہیں کسی بھی طرح کی تکلیف نہیں دینا چاہتا بلکہ اگر ہر ذی روح پر موت مقرر نہ ہوتی تو اللہ تعالی اپنے ولیوں کی روح بھی قبض نہ کرتا کیوں کہ وہ لوگ موت کو ناپسند کرتے ہیں ، لیکن چونکہ اللہ تعالی کا فیصلہ اٹل اور اس کاحکم نافذ ہے اس لئے ان کی روح قبض کرنا ایک لابدی امر ہے ۔

فوائد :

ü اللہ کے ولیوں اور دوستوں کے فضائل ۔

ü سچے ولی کی صفات کہ وہ فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتے اور کثرت نوافل کا اہتمام کرتے ہیں ۔

ü اللہ تعالی کے لئے محبت کا ثبوت ۔

ü فرائض نوافل پر مقدم اور اللہ تعالی کو زیادہ محبوب ہیں ۔

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى