شعبان کی سنت ،بدعت میں تبدیل
حديث نمبر :89
بتاریخ : 27/28 رجب 1430ھ، م 21/20جولائی 2009
عن غضيب بن الحارث الثمالي رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مَا أَحْدَثَ قَوْمٌ بِدْعَةً إِلَّا رُفِعَ مِثْلُهَا مِنْ السُّنَّةِ فَتَمَسُّكٌ بِسُنَّةٍ خَيْرٌ مِنْ إِحْدَاثِ بِدْعَة .
( مسند أحمد:4/105- مسند البزار:131، الزوائد – الطبراني الكبير:18/99 )
ترجمہ : حضرت غضیب بن الحارث الثمالی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کوئی قوم بدعت ایجاد کرتی ہے تو اس کی جگہ اس کے اندر سے ایک سنت اٹھا لی جاتی ہے لہذا سنت پر ڈٹے رہنا بدعت ایجاد کرنے سے بہتر ہے ۔
تشریح : بدعت سنت کی حریف اور اس کی ضد ہے سنت روشنی اور بدعت ضلالت وتاریکی ہے ، سنت کار ثواب اور بدعت عذاب الہی کا سبب ہے سنت حق اور بدعت باطل و جھوٹ ہے ” فماذا بعد الحق الا الضلال ” حق کے بعد ضلالت و گمراہی کے علاوہ اور کیا رہ جاتا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ شریعت میں بدعت سے سختی سے روکا گیا اور اس کے برے نتائج سے متنبہ کیا گیا ہے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بدعت ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے
[ صحیح بخاری ومسلم ]
ایک جگہ اور ارشاد فرمایا : ” اور بد ترین کام {دین میں} نئے کا م ایجاد کرنا ہے اور ہر نیا کام گمراہی ہے “[ صحیح مسلم ]
نیز ایک جگہ بڑے ہی بھیانک انداز میں امت کو بدعت سےمتنبہ کیا اللہ تعالی کسی بھی بدعتی کی توبہ قبول نہیں کرتا یہاں تک کہ وہ اپنی بدعت سے توبہ نہ کرلے [ الطبرانی ]
زیر بحث حدیث میں بھی بدعت کی ایک بڑی برائی اور اس کے برے انجام سے متنبہ کیا گیا ہے کہ جب بھی کوئی قوم کسی بدعت کو اپنا لیتی ہے اور اس پر سختی سے جم کر اسے شریعت کا درجہ دے دیتی ہے تو اس کی جگہ ایک سنت اٹھا لی جاتی ہے ، کیونکہ جس طرح جہاں فرشتے ہوتے ہیں وہاں شیطان نہیں آتا ، جہاں روشنی ہوتی ہے وہاں تاریکی پر نہیں مارتی ، جہاں حق ہوتا ہے وہاں سے باطل رخصت ہوجاتا ہے بعینہ اسی طرح اس کے برعکس بھی ہے کہ جہاں شیطان کی دخل اندازی ہوجائے رحمت کے فرشتے وہاں سے رخصت ہوجاتے ہیں تاریکی جیسے جیسے آتی جاتی ہے روشنی اسی طرح رخصت ہوتی جاتی ہے اور جہاں باطل کا دور دورہ ہوتا ہے حق وہاں سے چلا جاتا ہے ، اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ سنت کو مضبوطی سے پکڑے رہے ،کوئی بڑے سے بڑا کام جو بدعت کو پناہ دیتا ہو اسے انجام دینے سے بہتر ہے کہ کھانے پینے اور قضائے حاجت وغیرہ سے متعلق سنن وآداب کو رواج دے ۔
بدقسمتی سے آج ہمارے ماحول میں وہی منظر ہے جو اس حدیث میں پیش کیا گیا ہے کہ جہالت کی بنا پر اس امت نے آج سیکڑوں بدعات و رسوم کو ایجاد کر رکھا ہے اور اس پر اس طرح عامل ہیں جیسے اصل دین ہی وہی ہے جس کے نتیجے میں سنت و شریعت ان کی زندگی سے رخصت ہوچکی ہے حتی کہ بہت سے لوگ جو اس ماحول میں آنکھ کھول رہے ہیں انہوں نے بدعتوں کو سنت سمجھ لیا ہے جس کی سب سے واضح مثال ماہ شعبان ہے کہ اس مبارک مہینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول کیا رہا ہے اس ماہ کے مسنون کام کیا ہیں ان باتوں کا لوگوں کو علم نہیں ہے ، البتہ اس ماہ کی پہچان بعض بدعات سے ہوتی ہے ۔
آج کا عمومی مسلمان شعبان کے مہینے کو شب براءت سے جانتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ رہی ہے کہ آپ اس ماہ کثرت سے روزہ رکھتے تھے بلکہ معدودے چند دنوں کے پورےماہ کا روزہ رکھتے تھے
[ صحیح بخاری و صحیح مسلم ]
آج کا مسلمان اس مبارک ماہ کو حلوہ پوری سے تو جانتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ دو کام ایسے ہیں جن سے اس ماہ میں خصوصی طور پر پرہیز کرنا چاہئے : شرک باللہ اور کینہ و کپٹ ، اس مبارک ماہ میں ایام بیض اور پیر و جمعرات کے مسنون روزے تو نہیں یاد رہتے البتہ خاص پندرہویں شعبان کا روزہ جو ایک بدعت ہے ضرور یاد رکھتے ہیں وغیرہ ، ایصال ثوا ب کے مشروع طریقے کیا ہیں یہ تو نہیں معلوم ہے البتہ اس ماہ میں ایصال ثواب کے غیر مشروع طریقے ضرور یاد ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
اس لئے ضرورت ہے کہ لوگ اس ماہ کی اہمیت کو سمجھیں اور اس میں ایجاد شدہ بدعتوں پر عمل کرکے اپنی نیکیوں کو ضائع نہ کریں ۔
فوائد :
۱- بدعت اور سنت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ۔
۲- شعبان کے مہینے میں سنت کے کام روزہ رکھنا ، توبہ و استغفار ، شرک اور کینہ وکپٹ سے پرہیز ہیں ۔
۳- بدعت اللہ تعالی سے دور اور جہنم کے قریب کرتی ہیں ۔
۴- مسلم قوم کو غور کرنا چاہئے کہ کون کونسی سنتیں بدعتوں کی پاداش میں اٹھا لی گئیں ۔
ختم شدہ