گناہ کے بعد نیکی
حديث نمبر :92
بتاریخ : 16/17 شوال 1430ھ، م 06/05اکٹوبر 2009
عَنْ أَبِي ذَرٍّ الغفاري رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ” اتَّقِ اللَّهَ حَيْثُمَا كُنْتَ وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ ” .
( سنن الترمذي :1987، البر – مسند أحمد :5/153 – مستدرك الحاكم :1/54 )
ترجمہ : حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تو جہاں کہیں بھی ہو اللہ تعالی سے ڈر ، برائی کے بعد نیکی کر ،نیکی برائی کو مٹادے گی اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آ ۔
{ ترمذی ، مسنداحمد ، مستدرک حاکم } ۔
تشریح : اس دنیا میں بندے کا ایک تعامل اپنے خالق ومالک اور مربی ومحسن اللہ تعالی کے ساتھ ہے اور دوسرا تعامل اللہ تعالی کے بندوں کےساتھ اور وہی شخص کامیاب ہے جو ان دونوں میں درست رو اور راہِ حق پر گامزن رہے ۔ زیر بحث حدیث میں انہی دونوں تعامل سے متعلق تین زرین اصول بیان کئے گئے ہیں اگر کوئی بندہ ان اصول کا پاس ولحاظ رکھتا ہے تو وہ حقیقت میں کامیاب اور سچا مومن ہے ۔
[۱] اللہ تعالی کا تقوی : اس حدیث میں پہلا اصول یہ بیان ہوا ہے کہ انسان جہاں کہیں بھی اللہ تعالی سے ڈرتا رہے ، سفر میں ہو یا حضر میں ، خلوت میں ہو یا جلوت میں ، دن کے اجالے میں ہو یا رات کے اندھیرے میں ہر حال میں اللہ تعالی کے تقوی کو لازم پکڑے ، تقوی کا معنی ہے کہ بندہ واجبات کو ادا کرکے اور نافرمانی کے کاموں کو ترک کرکے اپنے اور عذاب الہی کے بیچ ایک آڑ بنالے ، اسی حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو یہی وصیت کی ہے کہ جہاں کہیں بھی رہو اللہ تعالی سے ڈرتے رہو ، جہاں تمہیں لوگ دیکھ رہے ہوں وہاں بھی اللہ تعالی سے ڈرتے رہو ، جہاں لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو وہاں بھی اللہ تعالی سے ڈرتے رہو ، جہاں کے لوگ تمہیں پہچان رہے ہوں وہاں بھی اللہ تعالی سے ڈرتے رہو اور جہاں کے لوگ تمہیں نہ پہچانتے ہوں ان کے درمیان بھی اللہ تعالی سے ڈرتے رہو کیونکہ بندوں کا کوئی کام ان کی کوئی بات کسی جگہ اور کسی بھی حال میں اللہ تعالی سے مخفی نہیں رہتی ، ” ان اللہ کان علیکم رقیبا ” [النساء] ” بیشک اللہ تعالی تم پر نگہبان ہے ” اس لئے تم لوگ اللہ تعالی کی نگہبانی کو دھیان میں رکھو اور خلوت و جلوت ہر حال میں اللہ تعالی کے ساتھ تعامل کے لئے یہ زریں اصول ہے اور بندوں کے ایمان بالغیب کا حقیقی امتحان یہی ہے کہ بندہ ہر جگہ اور ہر حال میں اللہ تعالی کی نگرانی کو مد نظر رکھتا ہے یا نہیں ۔
[۲] برائی کے بعد نیکی : یہ دوسرا اصول ہے جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے اور اس کا تعلق بھی اللہ تعالی کے ساتھ تعامل سے ہے ، کیونکہ کوئی بھی بندہ ہو تقوی کے تقاضے پورے کرنے میں اس سے کوتاہی کا ہونا بشریت کا تقاضا ہے ،
لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے عمل کی طرف رہنمائی فرمائی جس سے اس کوتاہی کا کفارہ ہوجائے کہ جب بھی تم سے کوئی گناہ کا کام ہو اس کے بعد فورا کوئی نیک کام کرجاؤ جو تمہاری اس کوتاہی کا کفارہ بنے گا ، کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ” ان الحسنات یذھبن السیئات ” [ھود : 114 ] ” بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : پنج وقتہ نمازیں ، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک کے گناہوں کا کفارہ ہے بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا جائے { صحیح مسلم } ۔
استغفارو توبہ نیکی اور گناہوں کا کفارہ ہے ، وضو نماز اور دیگر امور عبادت نیکی اور گناہوں کا کفارہ ہیں ، لوگوں سے درگزر فرمانا لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا ، لوگوں کی پریشانیوں میں کام آنا نیکی اور گناہوں کاکفارہ ہے ، حتی کہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹادینا ، راہ بھولے ہوئے شخص کو سیدھا راستہ بتا دینا ، کسی ضعیف اور کمزور شخص کا بوجھ اٹھا دینا نیکی اور گناہوں کا کفارہ ہے بلکہ اخلاص نیت سے صرف کلمۂ طیبہ کا پڑھ لینا بڑی اہم نیکی اور گناہوں کا کفارہ ہے ، چنانچہ ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ آپ مجھے کوئی خصوصی وصیت کیجئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم سے کوئی گناہ کا کام ہوجائے تو اس کے بعد کوئی نیک کام کردو ، نیک کام اس گناہ کے اثر کو مٹا دے گا ، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا ” لاالہ الا اللہ ” نیکی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ یہ تو سب سے افضل نیکی ہے { احمد :5/169 }
[۳] لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق : یہ تیسرا اصول ہے جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے ، اس کا تعلق لوگوں کے ساتھ تعامل سے ہے یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے ، اپنی طرف سے انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچنے دے ، اپنی زبان وہاتھ سے انہیں کوئی اذیت نہ دے ، ان کی اذیت وبدسلوکی پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرے ، ان سے نرم بات کرے اور خوش مزاجی اور ہنس مکھ چہرے سے ملے ، ان کی پریشانیوں اور تکلیفوں میں ان کا ساتھ دے ، غرض یہ کہ ان کے لئے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ، ” تم میں کا کوئی شخص اس وقت تک حقیقی مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کےلئے وہی کچھ نہ پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ” { بخاری ومسلم }
فوائد :
- اللہ تعالی کا خوف ہر نیکی کی اصل ہے ۔
- بندوں پر اللہ تعالی کا فضل ہے انہیں اپنے غضب سے بچنے کا راستہ بتایا ۔
- لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا بڑی اہم نیکی ہے ۔
- اچھے اخلاق کوشش سے حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔
ختم شدہ