جامع دعا
حديث نمبر :96
بتاریخ : 14/15/ ذو القعدہ 1430 ھ، م 03/02نومبر 2009
عَنِ عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال : النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم اَنَّهُ كَانَ يَقُولُ ” اللَّهُمَّ اِنِّي اَسْاَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى ” .
( صحيح مسلم :2721 ، الدعوات – سنن الترمذي :3489 ، الدعوات )
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے :
” اللَّهُمَّ اِنِّي اَسْاَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى ”
اے اللہ ! میں آپ سے ہدایت کا ، پرہیزگاری کا ، پاک دامنی کا اور تونگری [بے نیازی ] کا سوال کرتا ہوں ۔ {صحیح مسلم ، سنن الترمذی }
تشریح : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جامع دعاؤں کو پسند فرماتے تھے اور ان کے ماسوا کو چھوڑ دیا کرتے تھے { سنن ابو داود و صحیح ابن حبان } یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعاؤں میں ایسے الفاظ استعمال فرماتے تھے جن کے معنی و مفہوم میں دین و دنیا دونوں کی بھلائیاں جمع ہوتی تھی ، چنانچہ حدیث کی کتابوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو دعائیں صحیح سندوں سے مروی ہیں ان میں یہ خوبی نمایاں ہے کہ ان کے الفاظ مختصر اور ادائیگی میں بہت ہی آسان ہیں ، انہیں ، جامع دعاؤں میں سے ایک جامع دعا زیر بحث حدیث میں بھی مذکور ہے جو جوامع الکلم کی اعلی مثال ہے ، یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسی دعا سکھلائی ہے جس میں بندہ اپنے رب سے ایسی چار چیزوں کا سوال کرتا ہے جن میں دین و دنیا کی بھلائی جمع ہوگئی ہے ۔
[۱] اے اللہ میں آپ سے ہدایت کا سوال کرتا ہوں : یہاں ہدایت سے مراد ایسا علم ہے جو بندے کے لئے سود مند ہو ، جس کے ذریعہ وہ اپنے دین و دنیا کے معاملے میں راہ حق پر گامزن اور ثابت قدم رہ سکے حتی کہ اگر وہ کسی جگہ جارہا ہے تو وہاں اسے سیدھے اور درست راہ کی ہدایت حاصل رہے ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اللہ تعالی سے یہ دعا مانگو کہ : ” اے اللہ مجھے ہدایت دے اور سیدھا رکھ ” اور یہ دعا پڑھتے ہوئے ہدایت سے سیدھے راہ کی بھی ہدایت اور سیدھا سے مراد اپنی تیر کی بھی سدھائی مد نظر رکھو
[ صحیح مسلم و ابو داود ] ۔
[۲] اے للہ ! میں آپ سے تقوی کا سوال کرتا ہوں : اس حدیث میں تقوی سے مراد عمل صالح ہے یعنی ہر وقت وہی کام کروں جس سے تو راضی ہو اور اور ہر اس کام سے پرہیز کروں جن کے کرنے سے تو ناراض ہوتا ہے گویا میرا کوئی عمل آپ کے اور آپ کے رسول کی اطاعت سے باہر نہ ہو ، اب یہ دونوں چیزیں جسے حاصل ہوگئیں اس کے دین کی اصلاح ہوگئی اور وہ صراط مستقیم پر گامزن ہوگیا ۔
[۳] اے اللہ !میں آپ سے پاک دامنی کا سوال کرتا ہوں : یعنی مجھے ہر اس عمل سے بچنے کی توفیق دے جسے آپ نے حرام کیا ہے اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے محفوظ رکھنا ۔
[۴] اے اللہ! مجھے غنی و تونگر بنادے : غنی سے مراد یہ ہے کہ بندے کا دل اپنے رب سے جڑا رہے اسی سے امید رکھے ، دنیا کی تمام مخلوقات سے اس کا دل بے نیاز ہو، جو کچھ روزی اللہ تعالی کی طرف سے مل جائے اسی پر قناعت کرے کیونکہ مالداری یہ نہیں ہے کہ بندے کو بہت کچھ مال حاصل ہوجائے اور ہر قسم کی دولت مل جائے لیکن پھر بھی دل میں زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی ہوس باقی ہو ، کیونکہ اصل مالداری دل کی مالداری ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے کہ ساز وسامان کی کثرت کا نام مالداری و تونگری نہیں ہے بلکہ حقیقی مالداری نفس کی مالداری ہے
{ بخاری ومسلم } ۔
یعنی انسان کے پاس جو کچھ ہو اس پر صبر کرے اور دوسروں کے مال و اسباب کی طرف للچائی نظروں سے نہ دیکھے ۔ پھر جس شخص کو یہ دونوں چیزیں حاصل رہیں کہ وہ پاکدامن اور لوگوں سے بے نیاز رہا تو اسے دنیا کی سعادتمندی نصیب ہوگئی ۔
تو گویا جسے صحیح و نفع بخش علم حاصل رہا عمل صالح کی توفیق ملی رہی اور پاکدامنی اور دنیا کی مجبور مخلوق سے بے نیازی کی دولت حاصل رہی تو وہ شخص دنیا و آخرت کی سعادت سے مالا مال رہا ۔
سبحان اللہ دیکھیں کہ یہ دعا جوامع الکلم اور دنیا وآخرت کی سعادت کی کیسی عمدہ مثال ہے ؟ کا شکہ لوگ اس دعا کو یاد کرتے اور اس کا اہتمام کرتے ۔
فوائد :
- جس طرح عام لوگ اللہ تعالی سے علم وہدایت اور عفت و غنی کے سوال کے محتاج تھے اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ۔
- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کہ اللہ تعالی نے آپ کو جوامع الکلم کی دولت سے نوازا تھا ۔
- ہدایت وتقوی کی اہمیت کی آخرت کی سعادت مندی انہیں پر منحصر ہے ۔
- عفت و بے نیازی کی فضیلت کی دنیا میں سعادت مندی انہیں دونوں کی مرہون منت ہے ۔
ختم شدہ