تلبیہ کی تاریخ
حديث نمبر :98
بتاریخ : 28/29/ ذو القعدہ 1430 ھ، م 17/16نومبر 2009
عَنْ السَّائِبِ بْنِ خَلاَّدِ الأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ” أَتَانِي جِبْرِيلُ صلى الله عليه وسلم فَأَمَرَنِي أَنْ آمُرَ أَصْحَابِي وَمَنْ مَعِي أَنْ يَرْفَعُوا أَصْوَاتَهُمْبِالتَّلْبِيَةِ ” .
( سنن أبوداؤد : 1814 ، الحج – سنن النسائي : 2753 ، الحج – سنن الترمذي :829 ، الحج –
سنن ابن ماجة : 2922 ، المناسك )
ترجمہ : حضرت سائب بن خلا د انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے پاس حضرت جبرئیل تشریف لائے اور مجھ سے کہا کہ میں اپنے صحابہ اور ساتھیوں کو حکم دوں کہ وہ تلبیہ کہتے ہوئے اپنی آوازیں بلند کریں ۔ { سنن اربعہ }
تشریح : حضرت ابو الأنبیاء رسول اللہ ابراہیم علیہ السلام جب بحکم الہی خانہٴ کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالی نے انہیں حکم دیا کہ لوگوں میں اعلان کردیں کہ وہ اس گھر کے حج کے لئے آئیں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب ! میری آواز سب لوگوں تک کیسے پہنچ سکتی ہے ؟ اللہ تعالی نے فرمایا : تم اعلان کرو، آواز پہنچانا میرا کام ہے ، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک پہاڑ پر کھڑے ہوئے اور آواز لگائی : لوگو ! اللہ تعالی نے تمہارے اوپر اس مبارک گھر کا حج فرض کیا ہے لہذا حج کو آؤ ، چنانچہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس آواز کو ہر روح تک پہنچادی ، تو جس کے لئے حج مقدر تھا اس نے اس آواز پر لبیک کہا
{فتح الباری :3/409 }
اس عالم ارواح میں کئے گئے لبیک کی عملی تصویر یہ لبیک ہے جو اس گھر کا حج وعمرہ کرنے والے حضرات پکارتے ہیں ، شریعت کی اصطلاح میں اسے ہم لوگ تلبیہ کہتے ہیں جس کے مسنون الفاظ یہ ہیں :
(لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ)
{ صحیح بخاری وصحیح مسلم }
اے اللہ میں تیرے دربار میں حاضر ہوں ، باربار حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں ہے ، میں تیرے حضور حاضر ہوں ، ہر قسم کی حمد و ستائش کا تو ہی سزا ور ہے ، اور ساری نعمتیں تیری ہی ہیں اور بادشاہت تیری ہی ہے ، تیرا کوئی شریک نہیں ہے ۔
تو گویا بندہ جب احرام باندھ کر تلبیہ پکارتا ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے اللہ تعالی کے اسی بلاوے کا جواب دے رہا ہے کہ اے باری تعالی تو نے مجھے حاضری کا حکم دیا اب میں حاضر ہوں اور ہر قسم کے شرک سے تیرے بری ہونے کا اقرار کرتا ہوں ۔
یہ ہے تلبیہ کی تاریخ ، اس کا سبب اور اس کا معنی جس کا ذہن میں رکھنا اور اسے بلند آواز سے پڑھنا حج کا شعار اور نشان امتیاز ہے زیر بحث حدیث میں اسی چیز کا حکم ہے کہ اس گھر کا قصد کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ تلبیہ پڑھتے بلکہ بلند آواز سے تلبیہ پڑھتے ہوئے میقات سے آگے بڑھے ، اس امر کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے خصوصی طور پر حضرت جبرئیل کو یہ حکم دے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا تا کہ لوگ اس کی اہمیت کو سمجھیں اور اس مبارک گھر پہنچنے تک تلبیہ پڑھیں ، لہذا چاہئے کہ :
[۱] احرام باندھنے کے فورا بعد ہی سے یا سواری پر بیٹھتے ہی تلبیہ پڑھنا شروع کردیا جائے ۔
[۲] تلبیہ کہتے ہوئے اس نُسک کا بھی نام لے جس کے لئے احرام باندھ رہا ہے یعنی
اگر صرف عمرہ کر رہا ہے تو کہے ” لبیک اللھم لبیک ، لبیک عمرۃ ”
اور اگر حج افراد کا احرام باندھ رہا ہے تو کہے ” لبیک اللھم لبیک ، لبیک حجا ”
اگر حج قران کا احرام باندھ رہا ہے تو کہے ” لبیک اللھم لبیک ، لبیک حجا وعمرۃ ”
اور اگر حج تمتع کا احرام باندھ رہا ہے تو کہے ” لبیک اللھم لبیک ، لبیک عمرۃ متمتعۃ بھا الی الحج ”
اگر کسی رکاوٹ کا خوف ہو تو نیت کے بعد یہ الفاظ پڑھ لیا کریں : ” اللہم محلی حیث حبستنی ”
اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ رکاوٹ کی صورت میں دم دینے کی ضرورت نہ ہوگی ۔
[۳] تلبیہ بلند آواز سے پڑھے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سب سے افضل حج تلبیہ کہتے ہوئے اپنی آواز بلند کرنا اور خون بہانا یعنی قربانی کرنا ہے { سنن الترمذی و ابن ماجہ } ایک اور حدیث میں ہے کہ جب بھی کوئی تلبیہ پکارنے والا بلند آواز سے تلبیہ پکارتا ہے تو اسے جنت کی خوشخبری دی جاتی ہے { الطبرانی الاوسط }
[۴] کثرت سے تلبیہ پڑھتا رہے کیونکہ تلبیہ پڑھنا حج کا شعار ہے اور اس کی بڑی فضیلت وارد ہے ، ارشاد نبوی ہے ” جب بھی کوئی شخص تلبیہ پڑھتا ہے تو اس کے دائیں اور بائیں کی ہرچیز خواہ پتھر ہو ، درخت ہو یا ڈھیلے بھی اس کا تلبیہ سن کر تلبیہ پکارنا شروع کردیتے ہیں یہاں تک کہ روئے زمین کی آخری حد تک پہنچ جاتے ہیں { سنن الترمذی ،وابن ماجہ }
[۵] تلبیہ کے معنی ومفہوم پر غور کرے تا کہ وہ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کی مہمانی میں حاضر ہو اور جملہ شرک سے اپنے آپ کو بری کرلے ۔
فوائد :
0- تلبیہ حج کا شعار ہے ۔
1- تلبیہ بڑا ہی مبارک کلمہ ہے اور اس کے بہت فضائل ہیں ۔
2- تلبیہ میں توحید ہی توحید ہے اسی لئے صحابہ نے اسے کلمہ ٴ توحید کہا ہے ۔
3- بلند آواز سے تلبیہ پڑھنا اللہ کے نبیوں کا شیوہ رہا ہے ۔
ختم شدہ