جو حج پر نہ جا سکا ؟
حديث نمبر :99
بتاریخ : 06/07/ ذو الحجہ 1430 ھ، م 24/23نومبر 2009
عن أبي هريرة ، رضي الله عنه ، قال جاء الفقراء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا ذهب أهل الدثور من الأموال بالدرجات العلا والنعيم المقيم يصلون كما نصلي ويصومون كما نصوم ولهم فضل من أموال يحجون بها ويعتمرون ويجاهدون ويتصدقون قال ألا أحدثكم بأمر إن أخذتم به أدركتم من سبقكم ولم يدرككم أحد بعدكم وكنتم خير من أنتم بين ظهرانيه إلا من عمل مثله تسبحون وتحمدون وتكبرون خلف كل صلاة ثلاثا وثلاثين فاختلفنا بيننا فقال بعضنا نسبح ثلاثا وثلاثين ونحمد ثلاثا وثلاثين ونكبر أربعا وثلاثين فرجعت إليه فقال تقول سبحان الله والحمد لله والله أكبر حتى يكون منهن كلهن ثلاثا وثلاثين.
{ صحیح بخاری : 843 ، الأذان – صحیح مسلم :595 ، المساجد } ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فقرائے مہاجرین خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ دولت مند لوگ دولت کی بدولت اونچے مقامات اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں لے گئے ، نماز پڑھتے ہیں جیسے ہم نماز پڑھتے ہیں ، وہ روزہ رکھتے ہیں جیسے ہم روزہ رکھتے ہیں لیکن ان کے پاس زیادہ مال ہے جس سے وہ حج کرتے ہیں ، عمرہ کرتے ہیں ، جہاد کرتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں [ جو ہم نہیں کرپاتے ] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں ایک ایسا کام نہ بتلا دوں کہ اگر تم لوگوں نے اس پر عمل کرلیا تو اپنے سے آگے بڑھنے والوں کو پالوگے اور اپنے بعد والوں سے آگے بڑھ جاؤ گے ، مگر وہ شخص جو ویسا عمل کرلے [ وہ عمل یہ ہے کہ ] ہر نماز کے بعد :33، 33 بار سبحان اللہ ، الحمد للہ اور اللہ اکبر پڑھ لیا کرو ۔
تشریح : حج بہت ہی اہم فریضہ ، دین اسلام کا ایک اہم رکن ، درجات کی بلندی کا ایک اہم سبب ، گناہوں کی معافی کا بڑا اہم ذریعہ اور درجات کی بلندی کا ایک ہم عمل ہے ، اور ان سب سے اہم یہ کہ حاجی اللہ رب العالمین کا مہمان اور اپنی محبوب ترین ہستی کے گھر کی زیارت کرنے والا ہے ، اس لئے دنیا کے ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ نہیں تو کم ازکم ایک بار اپنے محبوب کے گھر کی زیارت ضرور کرلے ، لیکن چونکہ حج بیت اللہ کے لئے استطاعت شرط اور اس میں مال کی کمی ایک رکاوٹ ہے ، اس لئے بہت سے لوگ دلی خواہش ، سچا جذبہ اور گہرا شوق رکھنے کے باوجود بھی اس گھر تک نہیں پہنچ پاتے بلکہ عصر حاضر میں تو کچھ ایسےسیاسی واجتماعی مشکلات پیدا ہوچکی ہیں کہ مادہ کی مکمل فراوانی یا جزوی فراہمی کے باوجود بھی ایک مومن بندہ اس شرف سے مشرف نہیں ہوپا تا ، جس کی وجہ سے وہ پریشان ، کبیدہ خاطر ، آزردہ دل اور اداس رہتا ہے ۔ ۔۔۔
زیر بحث حدیث میں بھی کچھ ایسے ہی سچے دل مسلمانوں کا ذکر ہے کہ وہ مال کی کمی سے اس وجہ سے نہیں پریشان تھے کہ کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے اور رہن سہن سے متعلق ان کی خواہش محض بے مایگی کی وجہ سے پوری نہیں ہورہی تھی بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ اپنے مسلمان دولت مند بھائیوں کی طرح قربت الہی کے وہ ذریعہ جو مال و دولت سے حاصل کئے جاتے ہیں جیسے : حج ، عمرہ اور صدقہ و خیرات وغیرہ سے وہ محروم تھے لیکن رب کریم نے اگر اپنے عدل وحکمت سے انہیں مال ودولت سے محروم رکھا ہے کہ وہ حج وعمرہ کرسکیں اور صدقہ وخیرات جیسے عمل خیر میں شریک ہوسکیں تو بعض ایسے اعمال خیر کے اجر سےمحروم نہیں رکھا جو ان کے بس میں ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک چھوٹا سا ذکر بتایا کہ وہ لوگ اگر اس کا اہتمام کرلیں کہ اخلاص وللہیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہر فرض نماز کے بعد بالالتزام :
33 بار سبحان اللہ ، 33 بار الحمد للہ اور 34 بار اللہ اکبر کا ورد کرلیں تو اللہ تبارک وتعالی اس کے ذریعہ حج وعمرہ اور صدقہ وخیرات کی کمیوں کو پورا کردے گا ۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دیگر اعمال بھی بتلائے جن کا اہتمام کرکے ہر وہ شخص جو مال و دولت سے محروم ہے حج وعمرہ کا ثواب حاصل کرسکتا ہے جیسے :
[۱] علم شرعی کا حصول اور دین کی سمجھ حاصل کرنا : ارشاد نبوی ہے ، جو شخص مسجد صرف اس لئے جاتا ہے کہ بھلی بات سیکھے یا سکھائے تو اسے ایک کامل حج کا ثواب ملے گا {الطبرانی الکبیر و الحاکم } ۔
ایک اور حدیث میں ہے : جو شخص علم حاصل کرنے کے لئے نکلا وہ واپس آنے تک اللہ تعالی کی راہ میں ہے ، { سنن الترمذی } اور واضح رہے کہ حدیث رسول کی روشنی میں حج بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے ۔
[۲] نماز فجر کے بعد اپنی نماز کی جگہ بیٹھے رہنا : حدیث نبوی ہے : جو شخص فجر کی نماز با جماعت پڑھ کر اپنی نماز کی جگہ بیٹھ کر ذکر و اذکار کرتا رہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے پھر دو رکعت نماز پڑھ لیتا ہے تو ایک پورے حج و عمرہ کا ثواب ملے گا { سنن الترمذی } ۔
[۳] جماعت اور چاشت کی نماز کا اہتمام : ارشاد نبوی ہے : جو شخص اپنے گھر سے با وضو ہوکر کسی فرض نماز کے لئے نکلتا ہے تو اسے احرام باندھے ہوئے حاجی کے برابر اجر ملتا ہے اور جوشخص چاشت کی نماز کے لئے نکلتا ہے تو اسے عمرہ کرنے والے کے برابر اجر ملتا ہے { سنن ابوداؤد } ۔
[4،۵] جمعہ کے لئے جلدی جانا : چنانچہ جمعہ کے لئے جلدی جانے والے کی مثال یہ ہے کہ گویا اس نے ایک اونٹ بطور “ھدی ” یعنی مکہ مکرمہ میں ذبح کرنے کیلئے بھیجا ، اس کے بعد جو جاتا ہے اس نے گویا ایک گائے بطور ھدی کے دیا اور اس کے بعد جو جاتا ہے گویا اس نے ایک مینڈھا بطور ھدی کے پیش کیا ۔۔ الحدیث ۔ {متفق علیہ }
[۶] مسجد قبا کی زیارت اور اس میں دو رکعت نماز : جو لوگ مدینہ منورہ یا اس کے ارد گرد موجود ہیں ، یا وہ مسجد نبوی کے زیارت کے لئے گئے ہیں وہ اس فضل سے فیض یاب ہوسکتے ہیں ، حدیث میں ہے : جو شخص اپنے گھر سے باوضو ہوکر مسجد قبا آکر دو رکعت نماز پڑھ لے تو اسے ایک عمرہ کا ثواب ملتا ہے { سنن ابن ماجہ }
[۷] اسی طرح فرائض و واجبات کا اہتمام اور ، محرمات ومنہیات سے پرہیز نفلی حج سے بہتر ہے ، والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی خدمت نفلی حج وعمرہ سے زیادہ لائق ثواب ہے ، مسلمان بھائی کی حاجت براری نفلی حج سے افضل ہے حدیث میں ہے کہ میں کسی مسلمان کے ساتھ جا کر حاجت پوری کردوں و ہ اس مسجد یعنی مسجد نبوی میں ایک مہینہ کے اعتکاف سے افضل ہے ۔ { الصحیحہ :906 } ۔۔۔۔
اسی طرح حسن خلق کا مظاہرہ اور اپنی زبان کی حفاظت بڑی اہم نیکی ہے حضرت فضیل بن عباض سے فرمایا کہ زبان کو اپنے قابو میں رکھنا حج کرنے اور جہاد کرنے سے زیادہ مشکل کام ہے ۔
خلاصہ یہ کہ جو لوگ کسی مجبوری سے حج کو نہ جاسکے انہیں چاہئے کہ اپنے نفس کی اصلاح کی کوشش کریں اعمال خیر کا اہتمام کریں اور خدمت خلق کو اپنا شیوہ بنائیں ، گناہوں سے سچی توبہ کریں اور عرفہ کے دن کا روزہ رکھنا نہ بھولیں کیونکہ وہ ایک روزہ دوسال کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔ { صحیح مسلم }
کچھ بعید نہیں کہ اگر ان کی نیت سچی ہے ، اخلاص کی نعمت حاصل ہے تو گھر رہ کر بھی انہیں حج کا ثواب حاصل ہوجائے ۔
فوائد :
- اللہ تعالی نے مال وا سباب اس لئے بنائے ہیں کہ انہیں قرب الہی کا ذریعہ بنایا جائے ۔
- اخلاص ، سچے ارادے اور نیک جذبے سے انسان بہت بڑے اجر کا مستحق بن سکتا ہے ۔
- اللہ تعالی کا فضل وکرم کہ وہ اپنے اعمال بتلائے جو کرنے اور دیکھنے میں تو کم البتہ اجر وثواب میں بہت زیادہ ہیں ۔
- اللہ تعالی کے نزدیک سچی نیت ، اخلاص اور سچے جذبات کی قدر عمل سے زیادہ ہے ۔
ختم شدہ