(حديث نمبر 104) سید الاستغفار
حديث نمبر :104
بتاریخ : 18/19/ محرم 1431 ھ، م 05/04 جنوری 2010
عن شَدَّادُ بْنُ أَوْسٍ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ” سَيِّدُ الاِسْتِغْفَارِ أَنْ تَقُولَ:
“اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي، لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَاصَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَىَّ وَأَبُوءُ بِذَنْبِي، فاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ ”.
قَالَ ” وَمَنْ قَالَهَا مِنَ النَّهَارِ مُوقِنًا بِهَا، فَمَاتَ مِنْ يَوْمِهِ قَبْلَ أَنْ يُمْسِيَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَمَنْ قَالَهَا مِنَ اللَّيْلِ وَهْوَ مُوقِنٌ بِهَا، فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ، فَهْوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ”.
( صحيح البخاري :6306 ، الدعوات – مسند أحمد:4/122 – سنن الترمذي: 3393، الدعوات )
ترجمہ : حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سید الاستغفار {سب سے افضل و اعلی استغفار } یہ ہے کہ بندہ کہے : ” اے اللہ تو ہی میرا رب ہے ، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، تو نے ہی مجھے پیدا فرمایا اور میں تیرا ہی بندہ ہوں ، میں جہاں تک طاقت رکھتا ہوں تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں ، میں اپنے عمل وکردار کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں ، میرے اوپر تیری جو بھی نعمتیں ہیں آپ کے سامنے ان کا اقرار کرتا ہوں ، اور میں اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں ،پس تو مجھے معاف کردے ، تیرے سوا گناہوں کو معاف کرنے والا اور کوئی نہیں ہے ” جو شخص یہ کلمات دن میں دل کے یقین کے ساتھ پڑھے اور شام ہونے سے پہلے اسے موت آجائے تو وہ جنتی ہے اور جو شخص رات کو پڑھے پھر صبح ہونے سے پہلے اسے موت آجائے تو وہ جنتی ہے ۔ { صحیح بخاری ومسلم مسند احمد } ۔
تشریح : ارشاد باری تعالی ہے :
[يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الفُقَرَاءُ إِلَى اللهِ وَاللهُ هُوَ الغَنِيُّ الحَمِيدُ(15) إِنْ يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ(16) وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللهِ بِعَزِيزٍ(17) ]. {فاطر}.
” اے لوگو ! تم سب اللہ تعالی کے محتاج ہو اور اللہ تعالی بے نیاز ، خوبیوں والا ہے ، اگر وہ چاہے تو تمہیں فنا کردے اور [تمہاری جگہ ] ایک نئی خلقت پیدا کردے ، اور یہ کام اللہ تعالی پر کچھ مشکل نہیں ہے ” ۔
غور کرنے والوں کے لئے اس آیت میں چند بڑی اہم چیزیں بیان ہوئی ہیں کہ اس دنیا کے سارے لوگ خواہ نیک ہوں یا بد ، مومن ہوں یا کافر ، عام ہوں یا خاص حتی کہ انبیاء و اولیاء بھی اللہ تعالی کے سامنے مجبور محض ہیں ، اور اپنی زندگی کے ہر میدان میں کرم الہی کے محتاج ہیں ، بر خلاف ان کے اللہ تعالی کسی انسان بلکہ کائنات میں سے کسی بھی چیز کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ کلی طور پر بے نیاز ہے ،اس کی بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ سارے جن وانس اگر اس کے نافرمان ہوجائیں تو اس کی سلطنت میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی اور اگر سب
اس کے اطاعت گزار بن جائیں تو اس کی قوت و سلطنت میں کوئی اضافہ نہ ہوگا ، جبکہ مخلوق کا معاملہ ہے کہ ان کی رزق وبقائے حیات کے لئے اللہ تعالی نے جن چیزوں کو کام پر لگا رکھا ہے ان میں سے کسی ایک کو بھی ہٹا لے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتے لہذا مخلوق کو اس ذات کی حمد کرنی چاہئے ، اسی کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرنا چاہئے ۔
زیر بحث حدیث میں وارد دعا کے سید استغفار ہونے کا راز یہی ہے کہ کیونکہ اس دعا کے ایک ایک لفظ سے عبدیت اور محتاجی ٹپکتی ہے چنانچہ اس حدیث میں دس جملے ہیں ، پہلے تین جملوں میں اللہ تعالی کی تعریف اور الوہیت و ربوبیت میں اس کی وحدانیت کا اعتراف ، اس کے اکیلے خالق ہونے کا اقرار ہے ، پھر چوتھے اور پانچویں جملے میں بندہ اپنے بندہٴ عاجز و کمزور ہونے کے اقرار کے ساتھ ساتھ ” الست ” میں کئے گئے عہد و میثاق کی تجدید کررہا ہے اور اور مزید برآں اسلام قبول کرنے کی صورت میں جو ذمہ داریاں ہیں حسب استطاعت ان کے پورا کرنے کا وعدہ بھی کررہا ہے ، اس کے بعد چھٹے جملے میں اس قصور وتقصیر پر اللہ تعالی کی پناہ چاہ رہا ہے جو بتقاضائے بشریت اس سے صادر ہوتی ہیں ۔
ساتویں اور آٹھویں جملے میں اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں کا اعتراف کررہا ہے اور اسے پھر یہ بھی اعتراف ہے کہ ان تمام نعمتوں کا شکریہ میں نہیں ادا کرسکتا اور صرف یہی نہیں بلکہ تیری نافرمانیاں بھی ہوتی رہتی ہیں جس کا مجھے مکمل احساس ہے ۔
اب تمام اقرار و اعتراف کے بعد نوویں اور دسویں جملے میں اللہ تعالی سے مغفرت کا طالب ہے کہ اے اللہ تیرے سوا گناہوں کا معاف کرنے والا اور کون ہے ، اے اللہ میرے گناہوں کو معاف کردے ، گویا بندے کو یہ اعتراف ہے کہ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے جس کی صفت ہے کہ وہ تقصیر و کوتاہی کے باوجود گناہوں کو بخش دیتا ہے ” حق یہ ہے کہ جس صاحب بصیرت بندے کو وہ معرفت و بصیرت نصیب ہوجائے جس کے ذریعہ وہ اپنی اور اپنے اعمال کی حقیقت کو سمجھتا ہو اور دوسری طرف اللہ تعالی کی عظمت وجلالت اور اس کے حقوق کو بھی جانتا ہو تو وہ اپنے آپ کو قصور وار ، گنہگار اور خیر وبھلائی کے بارے میں مفلسی و تہی مایہ محسوس کرے گا ” پھر اس کے بعد اس کے زبان سے اللہ تعالی کے حضورجب یہ الفاظ ادا ہوں گے جن کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے تو یقینا بارگاہ الہی سے قبولیت کا پروانہ ملے گا ، ان شاء اللہ ، لیکن شرط یہ ہے کہ یہ کلمات صرف زبان سے ادا نہ ہوں بلکہ دل کی گہرائی سے ادا ہوں اور یقین و اخلاص کی اس میں ملاوٹ ہو۔
فوائد :
- استغفار کی فضیلت وا ہمیت ۔
- استغفار کے لئے اخلاص نیت ویقین شرط اولین ہے ۔
- استغفار کے لئے شرط ہے کہ بندہ اپنے کئے پر شرمندہ ہوں ۔
ختم شدہ