ہفتہ واری دروس

شیطان کا بدلہ اور رب کا وعدہ

حديث نمبر :105

بتاریخ : 25/26/ محرم 1431 ھ، م 12/11 جنوری 2010

عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إن الشَّيْطَانَ قَالَ وَعِزَّتِكَ يَا رَبِّ لَا اَبْرَحُ اُغْوِي عِبَادَكَ مَا دَامَتْ أرواحهم فِيأجسادهم قَالَ الرَّبُّ وَعِزَّتِي وَجَلَالِي لَا اَزَالُ اَغْفِرُ لَهُمْ مَا اسْتَغْفَرُونِي‏.‏

( مسند أحمد:3/29 – مستدرك الحاكم :4/261 – مسند أبو يعلى : 1399 )

ترجمہ : حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شیطان نے اللہ تبارک وتعالی سے کہا :اے میرے رب تیری عزت کی قسم جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں میں انہیں برابر بہکاتا رہوں گا ، اللہ تعالی نے اس کے جواب میں فرمایا : میرے عزت وجلال کی قسم ! جب تک وہ مجھ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتے رہیں گے میں بھی انہیں معاف کرتا رہوں گا ۔

{ مسند احمد ، الحاکم وغیرہ }

تشریح : اس حدیث پاک میں دو بڑی اہم باتیں بیان ہوئی ہیں :

[۱] شیطان ملعون کی دشمنی : ہمارے باپ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کی بنیاد پر جس دن سے شیطان مردود کو اللہ تعالی کے دربار سے ملعون ومردود ہونے کا لقب ملا ہے اسی دن سے اس نے یہ عہد کرلیا ہے کہ آدم اور ان کی اولاد کو ہر طرح سے راہ حق سے بھٹکانے کی کوشش کرتا رہے گا چنانچہ اس نے کہا : اے بار الہا : بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے {آدم و اولاد کے } لئے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا ، پھر ان پر حملہ آور ہوں گا ، ان کے آگے سے بھی ان کے پیچھے سے بھی ، ان کی داہنی جانب سے بھی اور ان کی بائیں جانب سے بھی اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے” ۔ {الاعراف :16-17 } یعنی آخرت کے بارے میں انہیں بے رغبت کرنے کی کوشش کروں گا ، ان کے عقائد کو متزلزل کردوں گا ، دنیا میں ان کی رغبت بڑھا دوں گا ، دین کے معاملے کو ان پر مشتبہ کردوں گا اور گناہوں کو ان کے سامنے مزین کرکے پیش کردوں گا ، ” اے میرے رب چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ، مجھے بھی قسم ہے کہ میں زمین میں ان کے لئے معاصی کو مزین کردوں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی سوائے تیرے ان بندوں کے جو مخلص ہوں گے ” { الحجر :39-40}

اس لئے اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید میں جگہ جگہ شیطان کی پیروی ، اس کے جال میں پھنسنے اور اس کی اطاعت سے منع فرمایا ہے اور اسے اپنا کھلا دشمن قرار دینے کی تاکید کی ہے ” اے آدم کی اولاد ! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں فتنے میں مبتلا کردے جیسا کہ اس نے تمہارے والدین {آدم و حوا } کو جنت سے نکلوا دیا تھا اور ان سے ان کے لباس اتروادیئے تھے تاکہ ان کو ان کی شرمگاہیں دکھلائے {یاد رکھنا } “وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم تم انہیں نہیں دیکھ سکتے “{ الاعراف :27 }

[یاد رکھو ]”شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسے اپنا دشمن بنالو ” { فاطر :6}

شیطان کا یہ موقف اور اللہ تعالی کا اس سے کثرت سے متنبہ کرنے کا معنی ہے کہ ہم شیطان کی چال سے غافل نہ ہوں اس کے مکر وفریب سے بچنے کی کوشش کریں ، ہر وہ کام جو شیطان کو محبوب ہو اس سے دور رہیں اور جن کاموں سے شیطان ناراض و ذلیل ہوتا ہے اسے اپنائیں ، چنانچہ وہ اعمال جو شیطان کو پسندیدہ ہیں ان میں خالق حقیقی کی نافرمانی سب سے اہم ہے اور اس کے ناپسندیدہ کاموں میں استغفار و توبہ سرفہرست ہے جیسا کہ شیطان بدبخت کا خود اقرار ہے کہ بنی آدم کو ہم نے گناہوں میں مبتلا کرکے ہلاکت کی راہ پر لگادیا لیکن کلمہٴلا الہ الا اللہ اور استغفار کے ذریعے ابن آدم نے مجھے ہلاک وبرباد کردیا ۔

زیر بحث حدیث کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اگر کوئی بندہ شیطان کے دھوکے میں آکر گناہ کرجائے تو اسے استغفار کا سہارا لینا چاہئے ۔

[۲] استغفار : یہی وہ دوسری اہم چیز ہے جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے خواہ بندے سے کتنا بڑا گناہ ہوجائے اور وہ خواہ کتنی بڑی تعداد مقدار میں گناہ کرجائے اگر وہ استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے معاف کردیتے ہیں ، یہاں کس قسم کا استغفار مرادہے ؟ یہ چیز قابل غور ہے ، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہر شخص جو اپنی زبان سے کلمہ ٴ استغفار پڑھتا رہے اور گناہوں پر گناہ کئے جائے وہ اللہ تعالی کے نزدیک قابل معافی ہے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ استغفار اور اس کی قبولیت کے کچھ شرائط قرآن وحدیث میں مذکور ہیں جن کا اہتمام کئے بغیر صرف لفظی استغفار بے معنی اور جسد بلا روح ہے ، وہ شرائط ہیں ؟ یہ اگلی مجلس کا حصہ ہے ،،،،،،،، انتظار کریں ۔۔

نوٹ : استغفار کے مختصر و مطول بہت سے صیغے حدیثوں میں مذکور ہیں البتہ سب سے زیادہ لائق ثواب صیغہ جو میری نظر سے گزرا ہے وہ

” استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم و أتوب الیہ ”

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص اس استغفار کو پڑھے گا تو اسے کے گناہ معاف کردئے جائیں گے خواہ اس نے میدان جہاد سے بھاگنے کا ارتکاب کیا ہو ۔

{ سنن ابو داود ، سنن الترمذی }

فوائد :

  1. گناہ کتنے ہی زیادہ ہوں اللہ تعالی کی رحمت اس سے بھی زیادہ وسیع ہے ۔
  2. شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے لہذا انسان کو بھی چاہئے کہ اسے اپنا دشمن سمجھے ۔
  3. استغفار کی فضیلت ۔
  4. استغفار بندے کے لئے اسی وقت مفید ہوگا جب اس کے شرائط پورے کئے جائیں ۔

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى