ہفتہ واری دروس

موبائل گھنٹی اور عمرفاروق کا کوڑا

حديث نمبر :107

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ كُنْتُ قَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ فَحَصَبَنِي رَجُلٌ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ اذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَاذَيْنِ‏.‏ فَجِئْتُهُ بِهِمَا‏.‏ قَالَ مَنْ أَنْتُمَا ـ أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا؟ قَالاَ مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ‏.‏ قَالَ لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ لأَوْجَعْتُكُمَا، تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم .

( صحيح البخاري :470، المساجد – السنن الكبرى :2/447،448 – مصنف عبد الرزاق :1/438 )

ترجمہ : حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار میں مسجد نبوی میں سویا ہوا تھا کہ کسی نے مجھے کنکر پھینک کر مارا ، جب میں نے دیکھا تو وہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ تھے ، انہوں نے مجھ سے کہا کہ : جاؤ اور ان دونوں آدمیوں کو بلا کر لاؤ ، جب میں ان دونوں کو بلا کر لایا تو حضر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا : تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو ؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ہم طائف سے آئے ہیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر تم اہل مدینہ میں سے ہوتے تو میں تم کو سخت سز ادیتا ، تم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اپنی آواز بلند کررہے ہو ۔

{ صحیح بخاری و سنن کبری }

تشریح : محبت ،خوف اور رجا کے ساتھ تعظیم عبادت الہی کے لازمی جزء ہیں ، ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی عبادت کرتے وقت جہاں اس سے محبت ، خوف ، رجا وغیرہ جیسے قلبی جذبات انسان کے اندر موجزن ہوں وہیں اس ذات ذو الجلال و الاکرام کی تعظیم کا جذبہ بھی کار فرما ہو ، یہی وجہ ہے کہ غایت تعظیم کی جتنی صورتیں ہیں وہ صرف باری تعالی کے ساتھ خاص ہیں جیسے سجدہ ، رکوع اور ہاتھوں کو باندھ کر بلا حس وحرکت کھڑا ہونا ، واضح رہے کہ تعظیم صرف اعمال عبادت تک خاص نہیں بلکہ امکنہ عبادت کی بھی تعظیم ، تعظیم الہی کا ایک حصہ ہے چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے :

[وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى القُلُوبِ] {الحج:32}

“اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے تو یہ بات اس کے دلوں کے تقوی سےتعلق رکھتی ہے ”

اس آیت میں شعائر سے مراد وہ تمام اشیاء ہیں جو دین اسلامی کے نمایاں امتیازی امور ہیں ،جیسے ، کعبہ مشرفہ ، صفا مروہ ، عرفات ، منی ومزدلفہ وغیرہ نیز اذان ، مسجدیں اور وہ دینی محفلیں داخل ہیں جو اللہ تعالی کے نام پر قائم کی جائیں ۔

یہ بات آج ملاحظے میں ہے کہ ذات باری تعالی اور اس کے شعائر سے متعلق تعظیم کا جذبہ لوگوں کے دلوں سے مفقود ہوتا جارہا ہے خصوصا مسجدوں کی تعظیم تو اب سرے سے ناپید ہوتی جارہی ہے جب کہ مسجد اللہ کے شعائر میں بہت اونچا مقام رکھتی ہے ،

جس کا اندازہ زیر بحث حدیث سے ہوتا ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہاں تک گوارہ نہیں کیا کہ مسجد رسول میں بلند آواز سے گفتگو کی جائے اور ان دونوں کو سخت سزا دینا چاہا لیکن صرف اس بنیاد پر سخت سزا دینے سے باز رہے کہ وہ لوگ مدینہ منورہ جو مرکز علم تھا اس سے دور کے رہنے والے تھے ، بلکہ آپ رضی اللہ عنہ نے تو مسجد کی تعظیم کو یہاں تک مدنظر رکھا کہ مسجد نبوی سے باہر ایک چبوترہ بنوادیا تھا کہ اگر کوئی شخص دنیاوی بات چیت کرنا چاہتا ہے تو وہ مسجد سے نکل جائے اور باہر بیٹھ کر گفتگو کرے ۔ { موطا امام مالک}

لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں نے مسجدوں کے اس ادب کو کھودیا ہے حتی کہ حرمین شریفین کے ادب کو بھی بالائے طاق رکھ دیا ہے خاص کر موبائل اور اس کی میوزک نما گھنٹی کی شکل میں تو مسجدوں کے ساتھ کھلی بے ادبی ہورہی ہے اور معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ لوگ اپنے موبائلوں میں موسیقا اور گانوں کی گھنٹی رکھتے ہیں اور بغیر بند کئے عام مسجدوں اور حرمین شریفین میں داخل ہوجاتے ہیں ، پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسجدوں بلکہ حرمین شریفیں میں نمازوں کے دوران مختلف گھنٹیوں اور گانے باجے کی آواز سنائی دیتی ہے ، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مسجد کی اہمیت اور ادب لوگوں کے دلوں سے ناپید ہے ،یہ حضرات یہ دھیان نہیں دیتے کہ کس کے دربار اور کس کی مجلس میں حاضری کے لئے جارہے ہیں ؟ اس طرح اگر غور کیا جائے تو وہ لوگ کئی جرموں کے مرتکب ہورہے ہیں ۔

[۱] اللہ کے ساتھ سوء ادب ۔

[۲] نماز میں خشوع وخضوع میں خلل اندازی ۔

[3] مسلمانوں کو تکلیف دینا اور ان کی نماز میں خلل اندازی ۔

[۴] اور سب سے بڑی بات یہ کہ مسجد میں شیطانی آواز ۔

اس لئے ضروری ہے کہ اس طرف توجہ دی جائے ورنہ ڈرہے کہ ہم لوگ اس حدیث کے ضمن میں آجائیں ، آخری زمانے میں کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوں گے کہ وہ مسجدوں میں دنیا کی باتیں کریں گے ، ایسے لوگوں کی اللہ تعالی کو کوئی ضرورت نہیں ۔ { صحیح ابن حبان } عیاذ باللہ ۔

فوائد :

  1. مسجد میں سونا جائز ہے ۔
  2. مسجد میں بلا ضرورت آواز بلند کرنا ، شور مچانا جائز نہیں ہے ۔
  3. مسجد کی تعظیم گویا اللہ تعالی کی تعظیم ہے ۔
  4. مسجد میں داخلہ کے وقت اپنے موبائل کو خاموش {سائلنٹ } رکھنا ضروری ہے ۔

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى