بیماری رحمت یا زحمت ؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :109
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم طرقه وجع فجعل يشتكي ويتقلب على فراشه فقالت له عائشة لو صنع هذا بعضنا لوجدت عليه فقال النبي صلى الله عليه وسلم : ((إن الصالحين يشدد عليهم وإنه لا يصيب مؤمناً نكبة من شوكة فما فوق ذلك إلا حطت عنه بها خطيئة ورفع له بها درجة)) .
( مسند أحمد:6/160- مستدرك الحاكم :3/319 – صحيح ابن حبان :2908 )
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرض لاحق ہوا جس کی وجہ سے آپ کراہنے لگے اور اپنے بستر پر کروٹیں بدلنے لگے ، یہ دیکھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : اگر ہم میں سے کوئی ایسی حرکت کرتا تو آپ اس پر غصہ ہوتے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نیک لوگوں پر سختیاں زیادہ کی جاتی ہیں ، اور مومن کو کانٹا چبھنے یا اس سے بھی ہلکے درجے کی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے عوض اس کا گناہ مٹایا جاتا اور درجہ بلند کیا جاتا ہے ۔ {احمد ، الحاکم ، ابن حبان } ۔
تشریح : یہ سنت الہیہ ہے کہ انسان کو اس دنیا میں مختلف قسم کے مصائب و پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، کوئی بیمار ہوتا ہے کسی کو چوٹ لگتی ہے ، کسی کا تجارتی نقصان ہوتا ہے اور کسی کے اہل وعیال مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ ، اللہ تعالی کا بتایا ہوا یہ ایسا نظام ہے کہ اس سے کسی کو چھٹکارا نہیں ہے ، مومن ہو یا کافر ، نیک ہو یا بد ۔ البتہ اتنا فرق ضرور ہے کہ یہ چیزیں کافروں کے لئے عذاب ونقحت اور مسلمانوں کے لئے رحمت ونعمت کا سبب ہوتی ہیں ، ان بیماریوں اور حادثات سے گناہ گار مسلمانوں کے گناہ معاف اور نیکو کاروں کے درجات بلند ہوتے ہیں ، یہ ایسے حالات ہیں جن سے اللہ تعالی کے مقرب ترین بندوں کو بھی دوچار ہونا پڑتا ہے بلکہ عمومی طور پر جو بندہ اللہ تعالی کا جس قدر محبوب ہوتا ہے اسے اسی قدر سخت حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، چنانچہ نوح علیہ السلام جھٹلائے گئے ، ھود و صالح علیہما السلام کو ستایا گیا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا اور حضرت ایوب علیہ السلام کو اٹھارہ سال تک کئی خطرناک ترین بیماریوں سے دو چار ہونا پڑا ، جس کا مقصد انہیں تکلیف دینا اور پریشان کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس سے ان کے قوت ایمانی کا اظہار اور باری تعالی کے پاس ان کے درجات کو بلند کرنا ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نیک اور مقرب بندے مصائب و پریشانیوں سے گھبراتے نہیں بلکہ عام لوگوں کے برخلاف انہیں اس سے خوشی ہوتی ہے ، جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں خدمت نبوی میں حاضر ہوا دیکھا کہ آپ کو سخت بخار ہے چنانچہ جب میں نے اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر رکھا تو آپ کے بخار کا اثر لحاف کے اوپر سے میں نے محسوس کیا ، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ کا بخار تو بہت تیز ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :
صورت حال ایسی ہی ہے کہ نبیوں کے اوپر بلا سخت ہوتی ہے اور اس کے عوض ہمیں اجر بھی زیادہ ملتا ہے ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے سوال کیا ، یا رسول اللہ ! سب سے زیادہ سخت آزمائش سے کن لوگوں کو دوچار ہونا پڑتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انبیاء علیہ السلام ان کے بعد {درجہ بدرجہ } نیک لوگ ، ایسا بھی ہوا ہے کہ انہیں فقر وفاقہ میں مبتلا کرکے آزمایا جاتا تھا حتی کہ بسا اوقات ان میں سے کسی کے پاس شرمگاہ چھپانے والی چادر کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہوتی تھی ، اور وہ لوگ بلاء ومصیبت میں مبتلا ہوکر ایسے ہی خوش ہوتے تھے جیسے تم لوگ فراخی و آسودگی ملنے پر خوش ہوتے ہو
{ سنن ابن ماجہ :4024 ، الحاکم :4/307 } ۔
زیر بحث حدیث میں بھی اسی حکمت الہی کا بیان ہے ، چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب دیکھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی شدت سے بستر پر کروٹیں بدل رہے اورتکلیف سے کراہ رہے ہیں تو اس پر تعجب کا اظہار کیا کہ یا رسول اللہ اگر ہم میں سے کوئی اس طرح کراہتا اور کروٹیں بدلتا تو شاید آپ اس پر ناراض ہوتے کیونکہ بظاہر یہ چیز صبر کے خلاف ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے اس شبہ کا ازالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے عائشہ میں بے صبری کا مظاہرہ نہیں کر رہا ہوں ، نہ ہی اللہ تعالی کی دی ہوئی اس بیماری سے نالاں ہوں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس بیماری میں مجھے تکلیف اس قدر زیادہ ہے کہ ایک کروٹ رہا نہیں جاتا اور بے اختیاری سے میرے منھ سے کراہنے کی آواز نکل جارہی ہے اور تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ عام لوگوں کے مقابلہ میں اللہ کے مقرب بندوں کو بیماری وغیرہ میں سخت حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے ، اور یہ بھی دھیان رکھو کہ بیماریاں خواہ چھوٹی ہوں یا بڑی مومن کے لئے رحمت ہی رحمت ہیں جن سے ان کے گناہ معاف ہوتے اور درجات بلند ہوتے ہیں ۔
بھائیو ! ایک طرف یہ دیکھئے کہ بیماری و مصیبت ایک مومن کے لئے رحمت ونقمت کا سبب ہے ، خاص کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو بلندی درجات کا ذریعہ ہے اور دوسری طرف یہ کہ بعض جاہل مسلمان صفر کے مہینہ کو صرف اس لئے منحوس تصور کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیماری کی ابتداء اسی مہینہ میں ہوئی جس سے آپ شفایاب نہیں ہوسکے ، یعنی جو چیز اللہ تعالی کی طرف رحمت ونعمت ہو اس کی وجہ سے کوئی مہینہ یا دن منحوس کیوں کر ہوسکتا ہے ، آخر اسے الٹی سمجھ اور اسلام کے خلاف عقیدہ نہ کہا جائے تو اسے کیا نام دیا جائے ۔
فوائد :
- بیماری ومصیبت مومن کے لئے رحمت ونعمت اور کافر کےلئے بلاء ومصیبت ہے ۔
- نبیوں کی بیماریاں اور پریشانیاں عام لوگوں کے مقابلہ میں زیادہ سخت ہوتی ہیں ۔
- جس کی مصیبت جس قدر زیادہ ہوئی اسے اتنا ہی زیادہ اجر ملے گا ۔
- صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا اسلامی عقیدے کے خلاف ہے ۔
ختم شدہ