عید میلاد اور سوموار کا روزہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :110
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عن أبي قتادة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم َسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الاِثْنَيْنِ قَالَ ” ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ وَيَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَىَّ فِيهِ ” .
( صحيح مسلم :1162، الصيام – سنن أبو داؤد :2425، الصوم – مسند أحمد :5/299 )
ترجمہ : حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کے روزے کی بابت سوال کیا گیا ، تو آپ نے فرمایا : یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی اور اس میں میری بعثت ہوئی اور مجھ پر وحی نازل کی گئی ۔
{ صحیح مسلم ، ابو داوؤد ، احمد }
تشریح : دنیا میں ہر طرف کفر وشرک کا اندھیرا چھایا تھا ، ظلم وبربریت کا دور دورہ تھا ، بے راہ روی اور شیطان کی عبادت کا چرچا تھا اور حق کے پجاری اور صراط مستقیم کے راہی کہیں خال خال ہی نظر آرہے تھے کہ غیرت کو حرکت ہوئی اور عام الفیل ماہ ربیع الاول موافق ماہ اپریل 571 کی کسی تاریخ کو بروز پیر صبح صادق کی پو پھٹ رہی تھی کہ ام القری مکہ مکرمہ شعب بنی ہاشم میں عبد اللہ بن عبد المطلب ہاشمی و قرشی کے گھر میں ایک بچے محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] کی شکل میں ایک نور ظاہر ہوا جس نے کفر وشرک کے اندھیروں کو دور کیا ، ظلم وبربریت کا خاتمہ کیا اور شیطان کی راہ سے ہٹا کر لوگوں کو رحمان کی راہ پر لگایا جنہیں بعد میں محمد رسول اللہ کہا جانے لگا ، حسن اتفاق یہ کہئے کہ آپ کی پیدائش موسم بہار میں ہے جس میں نہ گرمی کی شدت ہے اور نہ کڑاکے کی سردی ، جس سے اس طرف اشارہ تھا کہ آپ کے لائے ہوئے دین میں نہ یہودی مذہب جیسی سختی ہے اور نہ ہی عیسائی مذہب جیسی آزادی ، آپ کی پیدائش سوموار کے دن ہے جو ہفتے کا درمیانی دن ہے ، جمعہ ، سنیچر ، اتوار- سوموار – منگل ، بدھ جمعرات ، جس سے اس طرف اشارہ ہے کہ آپ کا لایا ہوا دین بھی “دین وسط ” ہے ، آپ کی پیدائش صبح کے وقت ہے جس سے اشارہ ہے کہ اب رات کی تاریکی کے ساتھ ساتھ کفر وظلمت کی تاریکی کا بھی خاتمہ ہونے والا ہے ، کہا جاتا ہے کہ یہ ماہ ربیع الاول کی 9، 11 یا 12 تاریخ تھی جس سے اس طرف اشارہ تھا جس طرح اب چاند مکمل ہونے جارہا ہے اسی طرح اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کی تکمیل کا اب وقت آرہا ہے ۔
چاہئے تو یہ تھا کہ اس عظیم انسان سے دل توڑ کر محبت کی جاتی ، اسے زندگی کے ہر شعبے میں اپنا آئیڈیل بنایا جاتا ، دن ورات کا کوئی بھی لمحہ ان کی یاد سے خالی نہ رہتا اور آپ کے ذکر میں ہر روز محفل یاراں منعقد کی جاتی ،
اسلام کے عہدزریں کے مسلمان کی یہی حالت تھی اس لئے وہ کامیاب و کامران ہوئے ، ترقی نے ان کے قدم چومے ، سمندروں نے انہیں راستہ دیا ، صحرا نے ان کے پینے اور وضو کےلئے پانی مہیا کیا حتی کہ درندوں نے ان کی رہنمائی کی لیکن عہد نبوت سے جس قدر لوگ دور ہوتے گئے وہ صراط مستقیم سے دور ہوتے گئے ، ہادیٴ برحق اور اسوہٴ کامل صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی تعلقات میں کمی آتی گئی ، جسے پورا کرنے کے لئے یا عوام کے سامنے اس کے اظہار کےلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وعقیدت کے نام پر بعض ایسے امور کا ارتکاب کیاجانے لگا جس کا ثبوت خیر القرون اور عہد سلف سے نہیں تھا ، انہیں کاموں میں ایک کام عید میلاد النبی ہے جس کا جشن ہر سال ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو منایا جاتا ہے ، بعض لوگ اپنی اس بدعت کے لئے زیر بحث حدیث سے دلیل پکڑتے ہیں ، حالانکہ حدیث کا مفہوم صرف یہ ہے کہ صحابی نے جب دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے روزے کا اہتمام کرتے ہیں تو اس کی وجہ پوچھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چونکہ اس دن میری ولادت ہے اور اسی دن مجھے شرف نبوت سے مشرف کیا گیا اس لئے بطور شکرانہ میں اس دن کا روزہ رکھتا ہوں اور اس کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی کہ بروز پیر و جمعرات بندوں کے نامہٴ اعمال اللہ تعالی کے حضور پیش کئے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ جب میرے نامہٴ اعمال اللہ کے حضور پیش ہوں تو میں روزے سے رہوں
{صحیح مسلم وغیرہ } ۔
معلوم ہوا کہ اس حدیث کا عید میلاد سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ ربیع الاول کو کوئی اہمیت نہ دی اور نہ ہی آپ نے اس دن کا روزہ رکھا بلکہ آپ کے کسی صحابی یا بعد کے کسی امام نے بھی بارہ ربیع الاول کو عید کا دن نہ بنایا ، اس لئے اگر کسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے دن سے خوشی کا اظہار کرنا ہے تو سوموار کے دن کا روزہ رکھے یہی خوشی کا مسنون طریقہ ہے باقی بدعت ۔
فوائد :
- سوموار کا روزہ سنت اور باعث اجر ہے ۔
- عید میلاد کا ثبوت نہ صحابہ سے ہے اور نہ ہی کسی قابل ذکر امام سے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت آپ کے اسوہ کی پیروی ہے ۔
ختم شدہ