تین قسم کے لوگ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :108
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَالنَّاسُ مَعَهُ، إِذْ أَقْبَلَ ثَلاَثَةُ نَفَرٍ، فَأَقْبَلَ اثْنَانِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَذَهَبَ وَاحِدٌ، قَالَ فَوَقَفَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَرَأَى فُرْجَةً فِي الْحَلْقَةِ فَجَلَسَ فِيهَا، وَأَمَّا الآخَرُ فَجَلَسَ خَلْفَهُمْ، وَأَمَّا الثَّالِثُ فَأَدْبَرَ ذَاهِبًا، فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ” أَلاَ أُخْبِرُكُمْ عَنِ النَّفَرِ الثَّلاَثَةِ أَمَّا أَحَدُهُمْ فَأَوَى إِلَى اللَّهِ، فَآوَاهُ اللَّهُ، وَأَمَّا الآخَرُ فَاسْتَحْيَا، فَاسْتَحْيَا اللَّهُ مِنْهُ، وَأَمَّا الآخَرُ فَأَعْرَضَ،فَأَعْرَضَ اللَّهُ عَنْهُ ”.
( صحيح البخاري :66، العلم – صحيح مسلم : 2176 ، السلام )
ترجمہ : حضرت ابو واقد اللیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور کچھ لوگ بھی آپ کے پاس تھے ، اتنے میں تین آدمی آئے ، ان میں سے دو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوگئے ، ان دونوں میں سے ایک نے حلقے میں کشادگی [جگہ ] دیکھی تو وہاں جا کر بیٹھ گیا ، اور دوسرا پیچھے ہی بیٹھ گیا ، البتہ تیسرا پیٹھ پھیر کر چلا گیا ۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم [اپنی گفتگو سے ] فارغ ہوئے تو فرمایا : کیا میں تمہیں تین آدمیوں کے بارے میں نہ بتلاؤں ؟ ان میں سے ایک نے تو اللہ تعالی کی طرف ٹھکانا پکڑا تو اللہ تعالی نے بھی اسے ٹھکانا عطا کردیا اوردوسرے نے شرم محسوس کی تو اللہ تعالی نے بھی اس سے شرم کا معاملہ کیا اور تیسرے نے بے رخی برتی تو اللہ تعالی نے بھی اس سے بے رخی کا برتاو کیا ۔
{صحیح بخاری وصحیح مسلم } ۔
تشریح : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کو سیکھنے ، اس کے لئے تگ ودو کرنے کے بارے میں لوگوں کے تین موقف ہوتے ہیں ، پہلے قسم کے وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو اس پر حریص اور اس کے طلبگار رہتے ہیں وہ احکام الہیہ کو سیکھنے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمامین کو طلب کرنے کی کوشش کرتے اور اس کے لئے مواقع تلاش کرتے رہتے ہیں اور جب کہیں ایسی کوئی مجلس منعقد ہوتی ہے تو اس میں حاضری کے لئے سب سے پہلے اور متکلم کے خوب قریب ہوکر بیٹھنا چاہتے ہیں ، دوسرے لوگ وہ ہیں جن کے اندر علم دین احکام الہی اور فرامین رسول سیکھنے کی کوئی ایسی تڑپ نہیں رہتی لوگوں کے کہنے اور دعوت دینے سے ایسی مجلسوں میں حاضری سے پیچھا نہیں چھڑاتے اور ادھر ادھر کا بہانہ کرکے دور نہیں بھاگتے بلکہ داعی ٴ مجلس یا ماحول سے شرم کھا کر وہ علم کی مجلسوں میں حاضر ہوجاتے ہیں ، البتہ تیسرے وہ لوگ ہیں جنہیں ایسی مجلسیں یک لخت نہیں بھاتی ، وہ ہر ممکن ایسی مجلسوں سے دور بھاگتے اور کسی نہ کسی عذر و بہانے سے حاضری سے پیچھا چھڑاتے ہیں بلکہ اگر کبھی کسی مجلس میں حاضر ہونے پر مجبور بھی ہوگئے تو ان کی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ گویا وہ آگ کے انگاروں پر بیٹھے ہیں ، ایسے ہی تین لوگوں کا ایک قصہ زیر بحث حدیث میں بیان ہوا ہے اور اللہ تعالی کے نزدیک ہر ایک کا کیا مقام ہے اس بھی ذکر ہے ۔
[۱] جہاں تک پہلے گروہ کا تعلق ہے تو وہ لوگ اللہ تعالی کا کے خصوصی رحمتوں کے مستحق ہیں اور یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی کا قرب حاصل ہے ، یہی لوگ ہیں جن کے لئے اللہ تعالی کے فرشتے حتی کے آسمان وزمین کی ہر چیز دعائے مغفرت کرتی ہے ، ان لوگوں سے اللہ تعالی اتنا خوش ہوتا ہے کہ ان کا ذکر اپنے مقرب فرشتوں سے کرتا ہے ، انہیں سکینت و اطمینان کی دولت ملتی ہے اور رحمت کے فرشتے ہر طرف سے ان کا احاطہ کرلیتے ہیں ، سبحان اللہ کیسے خوش نصیب ہیں یہ لوگ اور کس قدر قابل رشک ہیں یہ بندے ؎
یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے ۔
[۲] دوسرے گروہ کو بھی اللہ تعالی اپنی رحمتوں سے محروم نہیں کرتا بلکہ انہیں بھی اپنی رحمت و مغفرت کاایک بڑا حصہ دیتا ہے کیونکہ اولا تو جب انہیں ایسی مجلس سے غائب ہونے میں شرم محسوس ہوئی تو اللہ تعالی کو بھی انہیں محروم رکھنا اچھا نہیں لگا اور انہیں بھی اپنی رحمت کے سایے میں لے لیا ، ثانیا :چونکہ وہ لوگ اللہ کے مقرب بندوںو اس کے نیک بندوں کے قریب ہوئے ، اور ان کی صحبت اختیار کی تو اللہ تعالی نے بھی انہیں محروم نہ رکھا کیونکہ اللہ کے مقرب بندے وہ ہیں کہ ان کے ساتھ بیٹھنے والا محرومیت کا شکار نہیں ہوتا ۔
[۳] البتہ تیسرا شخص نہ مجلس علم کے طرف راغب ہوا ، نہ ایسی مجلسوں کو تلاش کیا اور اگر کہیں ایسی مجلس میسر بھی آئی اور اس میں حاضری کی دعوت دی گئی تو اس سے بے رخی اختیار کی ، اپنے رب کے احکام و فرامین کو سیکھنے سے بے نیاز رہا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا علم حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی تو اللہ تعالی نے بھی اسے اپنی رحمتوں سے محروم رکھا بلکہ خطرہ یہ ہے کہ اگر یہ لوگ دین سے اعراض اور بے رخی اسی طرح برتتے رہے اور دین کی بنیادی اورضروری باتوں کے سیکھنے کی طرف توجہ نہ دی تو درج ذیل فرمان الہی کے زد میں آجائیں ۔
[وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ أَعْمَى] {طه:124}
” اور ہاں جو میری ذکر سے اعراض کرے گا اس کی زندگی تنگ رہے گی اورہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے ”
فوائد :
- مجلس علم کی فضیلت ۔
- شرم کی فضیلت ۔
- علم دین کی مجلسوں سے دور بھاگنا بہت بڑی محرومی ہے ۔
ختم شدہ