حُبّ رسول اور کثرت امّت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :111
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أري الأمم بالموسم فراثت عليه أمته قال : فاريت فأعجبني كثرتهم قد ملأها السهل والجبل ، قال : يا محمد أرضيت ؟ قلت : نعم يا رب … الحديث……
( مسند أحمد :1/403 – الأدب المفرد :911 – صحيح ابن حبان :6052 ، 8/447 )
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حج کے موقعہ پر خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امتوں کا مشاہدہ کرایا گیا {آپ اپنی امت کو دیکھنے کی خواہش میں تھے لیکں } وہ آنے میں تاخیر کئے ، پھر آپ کی امت بھی آپ کو دکھائی گئی ، ان کثرت آپ کو بہت پسند آئی ، حتی کہ آپ کی امت سے وادی و پہاڑ سب بھرے پڑے تھے ، اللہ تعالی نے سوال کیا : یا محمد ! کیا اب آپ راضی ہوگئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :جی ہاں اے رب ۔
{ مسند احمد ، الادب المفرد ، صحیح ابن حبان } ۔
تشریح : فطری طور پر انسان اپنے ارد گرد ساتھیوں اور حامیوں کی کثرت کو پسند کرتا ہے ، وہ یہ چاہتا ہے کہ ساری دنیا کے لوگ اس کی ہاں میں ہاں ملائیں اور تمام لوگ اس کی باتوں کو قبول کرلیں خاص کر انبیاء علیہم السلام جو انسانوں کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان و توحید کی شاہراہ پر لانا چاہتے ہیں ، ان کی ہمیشہ یہ دلی خواہش رہتی ہے کہ ساری دنیا کے لوگ ان کی باتوں کو قبول کرکے اپنے خالق حقیقی اور مربی اصل کے بندے اور گن گانے والے بن جائیں ، خاص کر ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تو یہ دلی خواہش اور پوری کوشش تھی کہ ساری دنیا کے لوگ مسلمان ہوجائیں ، لیکن اللہ تعالی کی حکمت کسی اور چیز کا تقاضا کرتی ہے ۔ زیر بحث حدیث میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پاک جذبے کی طرف اشارہ ہے کہ جس سال آپ حجۃالوداع کے لئے تشریف لے گئے تھے تو کسی موقعہ پر خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام امتوں کا مشاہدہ کرایا گیا ، ہر نبی اپنی امت کے ساتھ جارہا تھا ، کسی کے ساتھ بڑی جماعت تھی اور کسی کے ساتھ چھوٹی جماعت حتی کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنی امت کے ساتھ گزرے تو ان کی کثرت کو دیکھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ شاید یہ میری امت ہو لیکن بتلایا گیا کہ یہ حضرت موسی علیہ السلام کی امت ہے ، جب آپ کی امت کےظاہر ہونے میں تاخیر ہونے لگی تو آپ کو تشویش لاحق ہوئی لیکن یہ تشویش چند لمحے کی تھی ، چنانچہ فورا ہی آپ سے کہا گیا کہ دیکھیں یہ آپ کی امت ہے جن کی کثرت سے وادی ، پہاڑ حتی کہ افق تک بھرے پڑے ہیں ، یہ اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کی کثرت کی وجہ سے ان کا آخری سرا دور اور بہت دور نظر آرہا ہے بلکہ نظر نہیں آرہا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کی کثرت دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی ، حتی کہ جب اللہ تعالی نے آپ کی یہ خوشی دیکھی تو پوچھا : اے محمد ! اب تو آپ کی تشویش دور ہوگئی اور آپ خوش ہوگئے ؟ جوابا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے میرے رب ! میں بہت خوش ہوں اور بڑا خوش نصیب بھی ہوں کہ میری امت کی تعداد تمام امتوں سے زیادہ ہے ۔ دیگر امتوں کے مقابلہ میں امت محمدیہ کی کثرت کا اندازہ درج ذیل حدیث سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی ” اسی 80صفیں اس امت کی ہوگی اور باقی چالیس40 صفوں میں دوسری تمام امتیں ہوں گی
{ سنن الترمذی و مسند احمد } ۔
لیکن اب یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی کثرت پسند ہے اور آپ کے لئے باعث فضل وشرف ہے تو ہم بحیثیت آپ کے ایک امتی کے اس کی تعداد بڑھانے میں کس طرح حصہ دار بن سکتے ہیں تاکہ کم از کم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب چیز سے محبت کرنے والوں میں ہمارا بھی شمار ہو سکے ؟ اس کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال پر نظر کرنے کے بعد ہمیں تین عمل ایسے ملتے ہیں جن پر عمل کرکے ہم اس کار خیر میں شریک ہوسکتے ہیں ۔
[۱] دین کی تبلیغ اور لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے کی دعوت : لوگ جس کثرت سے اسلام میں داخل ہوں گے امت محمدیہ کی تعداد میں اسی قدر اضافہ ہوتا جائے گا ، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد اسلامی کا سب سے اہم سبب یہ قرار دیا کہ لوگ اسلام میں داخل ہوں ، آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے غزوہٴ خیبر کے موقعہ پر فرمایا تھا : اللہ کی قسم اگر تمہارے ذریعہ اگرایک شخص کو بھی اللہ تعالی ہدایت سے نوا ز د ے تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے ۔
{ صحیح بخاری وصحیح مسلم } ۔
[۲] صراط مستقیم : پر جمے رہنا اور ہر اس عمل سے پرہیز کرنا جو صراط مستقیم سے بھٹکادے ، جیسے قتل وقتال اور بدعت ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرفہ کے میدان میں خطبہ دیتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگو ! میں حوض پر تمہارا میں سامان رہوں گا اور تمہاری کثرت سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا اس لئے دیکھنا مجھے وہاں رسوا نہ کرنا ، یاد رکھو اس موقف پر میں بعض لوگوں کو اپنی طرف کھینچ کر لاوں گا اور کچھ ایسے بھی ہوں گے جو مجھ سے جھپٹ لئے جائیں گے ، یہ دیکھ کر میں کہوں گا کہ اے رب یہ میرے ساتھی ہیں یہ تو میرے امتی ہیں ؟ لیکن مجھ سے کہا جائے گا :آپ کو کیا معلوم کہ ان لوگوں سے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کی تھیں ۔ ایک اور حدیث میں فرمایا : میں تم لوگوں کو زیادہ دیکھ کر دیگر امتوں پر فخر کروں گا اس لئے اس دین سے پھر کر ایک دوسرے کی گردنیں مارنا نہ شروع کردینا ۔ { مسند احمد } ۔
[۳] شادی کریں اور نسل کشی سے پرہیز کریں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شادی میری سنت ہے اور جو میری سنت سے پر عمل نہیں کرتا وہ ہمارے طریقے پر نہیں ہے ، لوگو ! شادی کرو اس لئے کہ میں تمہاری کثرت دیکھ کر دیگر امتوں پر فخر کردں گا ۔ { سنن ابن ماجہ }
ایک شخص خدمت نبوی میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے : یا رسول اللہ ایک عورت سے میں شادی کرنا چاہتا ہوں جو خوبصورت بھی اور اچھے خاندان سے تعلق رکھتی لیکن وہ بانجھ ہے اور اسے اولاد نہیں ہوگی ، کیا میں اس سے شادی کرلوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں ، اس نے یہی سوال تین بار دہرایا اور نفی میں جواب دیتے رہے پھر فرمایا : محبت کرنے والی اور زیادہ بچہ جننے والی عورت سے شادی کرو اس لئے کہ میں تمہاری کثرت سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا ۔
{ سنن ابو داود – سنن النسائی } ۔
فوائد :
۱- امت کی کثرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسندیدہ چیز ہے ۔ ۲- باہمی اختلاف امت محمدیہ کے شان کے خلاف ہے ۔
۳- شادی کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور امت کی کثرت کا سبب ہے ۔ ۳- اگر ہم سچے محب رسول ہیں تو امت کی کثرت ہیں حصہ دار نہیں ۔
ختم شدہ