ہفتہ واری دروس

محفل میلاد اور قیام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :112

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال : لم يكن شخص أحب إليهم من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : وكانوا إذا رأوه لم يقوموا ، لما يعلمون من كراهيته لذلك .

( سنن الترمذي : 2754، الأدب – الأدب المفرد :946 ، باب:428 – مسند أحمد :3/132 )

ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہٴ کرام کے نزدیک رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب کوئی اور شخص نہ تھا اور [ اور اسکے باوجود ]جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آتے ہوئے دیکھتے تو آپ کے لئے کھڑے نہ ہوتے اس لئے کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ یہ چیز آپ کو ناپسند ہے ۔

{ سنن الترمذی ، احمد ، الادب المفرد }

تشریح : رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم “فداہ ابی و اٴمی ” اللہ تعالی کے بندے اور رسول ہیں ، اللہ تعالی نے آپ کو عبدیت میں کمال کے درجے پر سرفراز کیا تھا یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی تکلف وتصنع اور کبر وغرور سے پاک ، سادگی وبے تکلفی اور تواضع و انکساری کی اعلی نمونہ تھی ، نہ آپ کسی پر اپنی بڑائی ظاہر کرنا چاہتے تھے اور نہ تکلفا اپنی وہ حیثیت ظاہر کرتے تھے جو اللہ تعالی نے آپ کو نہیں دی ہے ” [قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ المُتَكَلِّفِينَ] {ص:86} “آپ کہہ دیجئے کہ میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا اور نہ تکلف کرنے والوں میں ہوں یعنی میں بالکل بے لوث ہوکر تمہیں اللہ تعالی کا پیغام پہنچا رہا ہوں ، اس کا نہ تو تم سے کوئی صلہ مانگتا ہوں اور نہ ہی کوئی ذاتی غرض اس سے وابستہ ہے اور نہ ہی میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اپنی بڑائی قائم کرنے کے لئے جھوٹے دعوے لیکر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں { تیسر القرآن }

ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو زانو بیٹھے ہوئے کچھ کھا رہے تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! آپ ٹیک لگا کر بیٹھیں اور آرام سے کھائیں ، اس میں آپ کے لئے آسانی ہے ، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کر مزید جھکا لیا حتی کہ قریب تھا آپ کی پیشانی زمین کو چھولے پھر فرمایا :میں ایک بندہ ہوں ، اسی طرح کھاتا ہوں جس طرح ایک بندہ کھاتا ہے اور اسی طرح بیٹھتا ہوں جس طرح ایک بندہ { غلام اپنے آقا کے سامنے } بیٹھتا ہے ۔ { الصحیحہ }

ایک اور موقعہ پر ارشاد فرمایا : ” میری تعریف میں مبالغہ نہ کرنا جس طرح کہ عیسی بن مریم کے بارے میں نصاری نے مبالغہ کیا تھا ، میں بھی اللہ تعالی کا ایک بندہ ہوں اس لئے مجھے اس کا بندہ اور اس رسول کہو ” { بخاری ومسلم } ۔

ایک موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ لوگ حاضر ہوکر اس طرح مخاطب ہوئے : اے اللہ کے رسول ، اے ہم میں سب سے بہتر اور سب سے بہتر کے بیٹے اور اے ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ” ابھی وہ لوگ اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ آپ نے فرمایا : اے لوگو! وہی باتیں کرو جو تم کرتے ہو ، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں بہکا دے ، میں محمد ، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ، مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ تم مجھے اس مقام سے اونچا اٹھاؤ جس پر اللہ تعالی نے مجھے رکھا ہے ۔ { مسند احمد }

ان حدیثوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ چیز قطعا پسند نہیں تھی کہ آپ کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہوئے کوئی ایسا کام کیا جائے جو مقام عبدیت کے خلاف ہو ، زیر بحث حدیث میں بھی یہی چیز بیان ہوئی ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان فرمایا کہ صحابہ ٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مقام حاصل تھا اور وہ آپ سے جس قدر دل توڑ کر محبت کرتے کسی اور سے ویسی محبت نہ کرتے تھے ، اور محبت کا تقاضا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر تعظیما کھڑے ہوجائیں ، لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ قطعا پسند نہ تھا اور صحابہ کوئی ایسا عمل نہیں کرنا چاہتے تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج پر گراں گزرے اس لئے وہ جب آپ کو آتے دیکھتے تو کھڑنے نہ ہوتے بلکہ بیٹھے رہتے اور اپنی جگہ سے حرکت نہ کرتے ۔

ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تواضع وا نکساری دیکھئے ، دوسری طرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ احترام دیکھئے ، پھر ہمارے بھائیوں کا محفل میلاد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر آئے اور خصوصا آپ پر دورد وسلام پڑھتے وقت کھڑے ہونے پر غور کیجئے اور خود ہی فیصلہ کیجئے کہ ان کا یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےلئے خوشی ورضا مندی کا باعث ہے یا ایسا کرنے والے حضرات اس زمرے میں شریک ہونے کے حقدار بن رہے ہیں جن سے متعلق قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے ” سحقا سحقا لمن غیر بعدی ” { صحیح البخاری }

جن لوگوں نے میرے بعد دین میں رد وبدل سے کام لیا وہ دور ہوں وہ دور ہوں ” ۔

جب کہ ہمارے بھائیوں کا یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ناپسندیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کفریہ عقیدے پر بھی مشتمل ہے یعنی یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بذاتہ وجسمہ ان کی مجلس میں تشریف لے آتے ہیں [نعوذ باللہ ] حالانکہ قرآن وحدیث سے ثابت عقیدہ کی بنیاد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ اور مشغول عبادت ہیں ۔

فوائد :

1) صحابہٴ کرام کی فضیلت و منقبت ۔

2) کسی شخص کی آمد پر اس کے احترام میں کھڑا ہونا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ناپسندیدہ عمل تھا ۔

3) کسی مسافر کی آمد پر یا مصافحہ و معانقہ کے لئے کھڑا ہونا ممنوع نہیں ہے ۔

4) سب سے برا یہ ہے کہ ایک شخص بیٹھا ہوا اور لوگ اس کے احترام و تعظیم میں کھڑے رہیں ۔

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى