نذر اور اسکی قسمیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :113
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عن عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من نذر أن يطيع الله فليطعه ومن نذر أن يعصيه فلا يعصه .
( صحيح البخاري :6696 ، الإيمان – سنن أبوداؤد :3289 ، الإيمان – سنن الترمذي :1526 ، النذر والإيمان )
ترجمہ :جو شخص اس بات کی نذر مانے کہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت کرے گا تو اسے اللہ تعالی کی اطاعت کرنی چاہئے [اپنی نذر پوری کرنی چاہئے ] اور جو شخص نذر مانے کہ وہ اللہ تعالی کی نافرمانی کرے گا تو وہ اللہ تعالی کی نافرمانی نہ کرے ۔
{ صحیح بخاری ، سنن ابو داود }
تشریح : اپنے آپ پر کسی چیز کو واجب کرلینے کا نام نذر ماننا یا منّتماننا ہے ، یہ نذر کبھی مطلق ہوتی ہے جیسے میں یہ نذر مانتا ہوں کہ روزانہ پچاس رکعت نفل پڑھوں گا یا میں اللہ تعالی سے یہ عہد کرتا ہوں کہ ہر ماہ دس دن کا روزہ رکھوں گا ، شرعی طور پر ایسی نذر ماننا پسندیدہ اگرچہ نہیں ہے لیکن اگر نذر مان لی گئی تو اس کا پورا کرنا فرض و واجب ہے یہ نذر ناپسندیدہ اس لئے ہے کہ بندے نے اپنے اوپر ایک ایسی چیز کو واجب کرلیا جو اس پر شرعی طور پر واجب نہیں تھی اور بہت ممکن ہے کہ اس کی ادائیگی سے عاجز آجائے ، نذر کی دوسری صورت یہ ہے کہ کبھی کسی سبب کے ساتھ معلق کی جاتی ہے ، جیسے اگر میرا بچہ شفایاب ہوگیا تو اللہ کے لئے ایک بکرہ ذبح کروں گا ، یہ نذر پہلی صورت سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا : ” نذر نہ مانو اس لئے کہ نذر تقدیر سے کسی چیز کو دور نہیں کرتی ، سوا اسکے کہ نذر کی وجہ سے بخیل کچھ مال خرچ کردیتا ہے ” ۔ {بخاری ومسلم } ۔
یعنی گویا یہ شخص اللہ کی راہ میں اسی وقت خرچ کرے گا جب اس کا کسی قسم کا فائدہ ہوگا اور اس کا کوئی فائدہ نہ ہو تو اللہ تعالی کے راستے پر خرچ نہ کرے ، البتہ اس کا بھی پورا کرنا ضروری اور واجب ہے ۔
نذر کی ایک تیسری صورت وہ ہوتی ہے جس میں بندہ اللہ تعالی کی نافرمانی کی نذر مانتا ہے ، جیسے کوئی یہ کہے :میرا یہ کام ہوجائے تو فلاں مزار پر چراغ جلاوں گا یا چادر چڑھاؤں گا ، یا کسی سے ناراض ہوکر اس سے بات نہ کرنے کی نذر مان لے ، اس نذر کا حکم یہ ہے اس کا پورا کرنا جائز نہیں ہے بلکہ بسا اوقات اس نذر کا پورا کرنا کفر وشرک تک پہنچا دیتا ہے ، البتہ اس نذر کو توڑنے کی وجہ سے اس پر قسم کا کفارہ واجب ہوگا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : کسی گناہ کے کام کی نذر {ماننا یا اسے پورا کرنا جائز } نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے {سنن ابو داود ، الترمذی } ۔
یعنی اگر کوئی شخص کسی گناہ کے کام کی نذر مانتا ہے تو اس پر واجب ہے کہ اس نذر کو پورا نہ کرے بلکہ اسے توڑ دے اور قسم کا کفارہ ادا کرے ،
کفارہ یہ ہے ایک غلام آزاد کرنا ، یا دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو کپڑا پہنانا ، اور اگر ان تینوں کاموں سے کوئی ایک کام بھی نہ کرسکے تو تین دین کا روزہ رکھنا ۔ ۔۔۔ زیر بحث حدیث میں نذر کی انہیں صورتوں کا حکم بیان ہوا ہے البتہ نذر کی بعض اور قسمیں بھی ہیں جیسے :
جائز نذر : اس کی صورت یہ ہے کہ بندہ کسی جائز کام کرنے کی نذر مانے جیسے کسی کپڑے کے پہننے کی یا کسی کپڑے کے نہ پہننے کی ، کسی خاص سواری پر سوار ہونے کی یا اس پر سوار نہ ہونے کی نذر مانے اس نذر کا حکم یہ ہے کہ نذر ماننے والے کو اسے پورا کرنے یا پورا نہ کرنے کا اختیار ہے ، البتہ اگر اسے پورا نہ کیا گیا تو اس کا کفارہ ادا کرنا ہوگا ۔
مکروہ نذر : نذر کی ایک قسم یہ ہے کہ کسی مکروہ اور شرعا ناپسندیدہ عمل کی نذر مانی جائے جیسے بغیر کسی شرعی وجہ کے طلاق کی نذر ماننا ، پیاز و لہسن کھا کر مسجد جانے کی قسم کھانا وغیرہ ۔ اسکے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اس نذر کا پورا کرنا بہتر نہیں ہے بلکہ مستحب یہ ہے کہ اس کفارہ ادا کیا جائے ۔
غصے اور جھگڑے کی نذر: اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ بندہ اپنے کو یا کسی اور شخص کو کسی کام سے روکنے یا کسی کام کے کرنے کے لئے نذر مانے جیسے یہ کہے کہ اگر میں نے ایسا کیا تو دو مہینے کا روزہ رکھوں گا یا ایک بکری ذبح کرکے لوگوں کی دعوت کروں گا ۔
اس کا حکم یہ ہے کہ اس نذر کا پورا کرنا واجب نہیں ہے ، چاہے تو پوار کرے یا قسم کا کفارہ اداکرے ،البتہ بہتر یہی ہے کہ اگر کسی عبادت کے کام کی نذر مانی ہے تو اسے پورا کرنا بہتر ہے اور اگر کسی عادت کے کام کی نذر مانی ہے تو اسے پوراکرنا یا کفارہ دینا دونوں برابر ہے ۔
جس چیز کا مالک نہ ہو اس کی منت ماننا : اس کی صورت یہ ہے کہ بندہ کسی ایسی چیز کے صدقہ وخیرات کی قسم کھائے جس کا وہ مالک نہیں ہے ، اس نذر کا حکم ہے کہ اس کا پورا کرنا مشروع نہیں ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس نذر کو پورا کرنا جائز نہیں جس میں گناہ ہو اور اس نذر کو بھی پورا کرنا نہیں ہے جس کا آدمی مالک نہیں ہے { سنن ابو داود بروایت عمران } ۔ اس پر کفارہ ہے کہ نہیں اس بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے احتیاط اسی میں ہے کہ اس کفارہ ادا کیا جائے ۔
شکرانے کی نذر : اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی بندے کو مصیبت سے نجات مل گئی ، اسے اولاد کی دولت نصیب ہوئی یا کسی خطرناک بیماری سے شفا مل گئی تو بطور شکریہ کے نذر مانے کہ میں نیکی کا یہ کام کروں گا ، اس کا حکم یہ ہے کہ اسے پورا کرنا کار ثواب اور یہ ایک نیک عمل ہے ، اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کی تعریف فرماتا ہے: [يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا] {الإنسان:7} ” جو نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے “۔
ختم شدہ