ہفتہ واری دروس

حقیقی مومن ومجاہد و مہاجر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :115

خلاصہٴ درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

عن فَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ رضي الله عنه ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ ألا أخبركم بِالْمُؤْمِنِ مَنْ اَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى اَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ الْخَطَايَا وَالذَّنُوبَ‏.‏

( مسند أحمد:6/21 – صحيح ابن حبان :4842، 7/216 )

ترجمہ :حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہصلى الله عليه وسلم نے حجۃ الودا کے موقعہ پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : کیا میں تمہیں حقیقی مومن کے بارے میں نہ بتلاؤں ؟ وہ شخص کہ اپنے جان ومال پر لوگ اسے امین سمجھیں ، اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان و ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں ، اور مجاہد وہ ہے جو اللہ تعالی کی اطاعت پر اپنے نفس سے جہاد کرے اور مہاجر وہ ہے جو گناہو ں اور نافرمانیوں کو ترک کردے ۔

{ مسند احمد ، صحیح ابن حبان }

تشریح : ایمان ، اسلام ، جہاد اور ہجرت یہ ایسے الفاظ ہیں جن کے اثبات پر شریعت نے بہت بڑے اور دنیا و آخرت کی سعادتمندی کا وعدہ کیا ہے لیکن کیا ہر وہ شخص جو کلمہٴ شہادت پڑھ کر توحید کا اقرار کرلے وہ کامل مومن اور پکا مسلمان ہوجاتا ہے کیا ہر وہ شخص جو جہاد کا نام لے اور ہتھیار کی مشق کرنے لگے وہ مجاہد کہلاتا ہے اور کیا ہر وہ شخص جو دیار کفر کو چھوڑ کر دیار اسلام کی طرف آجائے وہ حقیقی مہاجر بن جاتا ہے ؟ نہیں ، پھر سوال ہے کہ ایمان و اسلام اور ہجرت و جہاد کی حدود کیا ہیں جن کی حفاظت سے کوئی شخص حقیقت میں ان الفاظ کو ثابت کرنے والا کہلائے اور دنیا و آخرت کی سعادتمندی سے سرفراز ہو ، نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی زیر بحث حدیث میں اسی سوال کا جواب موجود ہے ۔

” مومن وہ ہے کہ لوگ اپنے جان ومال پر اسے امین سمجھیں ” ۔ اس لئے کہ جب ایمان دل میں رچ بس جاتا ہے تو وہ مومن کو ایمان کے حقوق کی ادائیگی پر بھی ابھارتا ہے ، امانتوں کی رعایت ، معاملات کی صفائی ، لوگوں پر ظلم اور ان کے مال وجان پر ناجائز قبضے سے پرہیز ایمان کے اہم حقوق ہیں لہذا جو شخص ان صفات سے متصف ہوگا تو لوگ اس پر اعتماد کریں گے اور اپنے جان ومال کے بارے میں اس کی طرف سے مطمئن ہوں گے کیونکہ امانت کی ادائیگی اور معاملات کی سچائی مومن کے واجبات میں داخل ہے ، ارشاد نبوی ہے : جو امانت دار نہیں وہ مومن نہیں { مسند احمد }

نیز فرمایا : ” بندہ کامل مومن اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک جھوٹ بولنا نہ چھوڑدے ، خواہ مذاق ہی میں کیوں نہ ہو” { مسند احمد } ۔

” مسلمان وہ ہے جس کی زبان و ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں ” : اس لئے کہ حقیقی اسلام یہ ہے کہ بندہ مکمل طور پر اللہ تعالی کا تابع بن جائے اس کی بندگی کا حق ادا کرے اور اللہ تعالی اور اس کے بندوں کے حقوق کو پورا کرے ، نیز کمال اسلام میں یہ بھی داخل ہے کہ بندہ جو چیز اپنے لئے پسند کرے وہی غیروں کے لئے بھی پسند کرے جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ لوگ اس کے شر سے محفوظ رہیں گے

اور اس کی زبان وہاتھ سے تکلیف نہ اٹھائیں گے ۔ یہ وہ ادنی درجے کا فرض ہے جو بندے پر اپنے بھائیوں کے تئیں ہے ، لہذا جس کی زبان وہاتھ کے شر سے اس کے بھائی محفوظ نہ رہ سکیں تو گویا اس نے اپنے بھائیوں کے تئیں اپنا فرض ادا نہیں کیا ، معلوم ہوا کہ اپنی عملی و قولی برائیوں سے لوگوں کو امن میں رکھنا کمال اسلام کی علامت ہے ۔

“مجاہد وہ ہے جو طاعت الہی پر اپنے نفس سے جہاد کرے ” : اس لئے کہ نفس ، انسانی برائی پر ابھارنے والا ہوتا اور نیکی سے جی چراتا ہے ، مصیبتوں اور پریشانیوں سے بہت جلد متاٴثر ہوتا اور گھبرا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اطاعت الہی پر اسے لگانے اور جمانے کے لئے صبر وجہاد کی ضرورت پڑتی ہے گناہوں سے روکنے ، اس سے باز رکھنے کے لئے مجاہدہ اور کوشش کرنی پڑتی ہے اور مصائب وپریشانی کے وقت صبر و احتساب کا عادی بنانے کے لئے مجاہدے سے کام لینا پڑتا ہے ، پھر غور کریں تو یہی چیزیں یعنی احکام الہی کا بجالانا اور اللہ تعالی کی مقرر کردہ تقدیر پر صبر کرنا ہی اصل اطاعت شعاری ہے اس لئے حقیقی مجاہد وہی ہے جو اپنے نفس کو ان کاموں کا عادی بنائے اس چیز کو اس حدیث میں جہاد سے تعبیر کیا گیا ہے ، البتہ یہ واضح رہے کہ سب سے افضل جہاد اللہ کے دشمنوں سے جہاد ہے خواہ وہ زبان کے ذریعے ہو ، مال کے ذریعے ہو یا ہتھیار کے ذریعے کیونکہ یہی وہ جہاد ہے جسے اسلام کے کوبان کی بلندی ہے {الترمذی ، احمد } ارشاد نبوی ہے : مومن اپنے مال ، جان اور اپنی زبان سے جہاد کرتا ہے ۔

” مہاجر وہ ہے جو گناہوں اور نافرمانیوں کو ترک کردے ” : یہ ایسی ہجرت ہے جو ہر مسلمان پر فرض عین ہے یعنی ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ ہر قسم کے گناہ اور نافرمانی والے کام کو ترک کردے ۔ البتہ وہ خاص ہجرت جو بلاد کفر وبدعت سے بلاد ایمان و سنت کی طرف کی جاتی ہے وہ اس عام ہجرت کا ایک حصہ ہے جو ہر شخص پر فرض نہیں ہے بلکہ صرف وہ اسی وقت واجب ہے جو کفر وبدعت کے غلبہ کے سبب اسلام وسنت پر عمل نہ کرسکے ۔

اس طرح جو شخص اس حدیث پر عمل کرلے گا تو گویا اس نے پورے دین پر عمل کرلیا ، جس کی زبان وہاتھ سے لوگ محفوظ رہ جائیں ، لوگ اپنے مال وجان پر اسے امین سمجھیں ، وہ برائیوں سے کنارہ کشی اختیار کرلے اور اپنے نفس کو اطاعت الہی کے تابع بنادے تو کوئی بھی دنیا و آخرت کی بھلائی ایسی نہیں ہے جسے اس نے چھوڑا ہو اور ظاہری وباطنی کوئی ایسی نیکی نہیں ہے جس پر اس نے عمل نہ کیا ہو ، اور یہ چیز بغیر توفیق الہی کے ممکن نہیں ، اے اللہ ہمیں اپنی خاص توفیق سے نواز —- آمین ۔

فوائد :

1) ہر وہ چیز جس سے لوگوں کو تکلیف ہو اس سے دور رہا جائے ۔

2) امانت داری اور معاملات کی سچائی سچے مومن کی علامت ہے ۔

3) اطاعت شعاری اور نافرمانی سے پرہیزی اصل ہجرت ہے ۔

4) اللہ کے دشمنوں سے جہاد فرض کفایہ اور اپنے نفس سے جہاد فرض عین ہے ۔

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى