نیند سے پہلے نیکی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :116
خلاصہٴ درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ” إِذَا أَتَيْتَ مَضْجَعَكَ فَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلاَةِ، ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَى شِقِّكَ الأَيْمَنِ، ثُمَّ قُلِ
اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْكَ إِلاَّ إِلَيْكَ، اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ.
فَإِنْ مُتَّ مِنْ لَيْلَتِكَ فَأَنْتَ عَلَى الْفِطْرَةِ، وَاجْعَلْهُنَّ آخِرَ مَا تَتَكَلَّمُ بِهِ ”.
( صحيح البخاري :247 ، الوضوء – صحيح مسلم :2710 ، الذكر والدعاء )
ترجمہ : حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم اپنی خوابگاہ میں جانے کا ارادہ کرو تو جس طرح اپنی نماز کے لئے وضو کرتے ہو ویسے ہی وضو کرو پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاؤ اور یہ دعا پڑھو : ” اے اللہ میں نے اپنا نفس تجھے سونپ دیا ، اور اپنا رخ تیری طرف موڑ لیا ، اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کردیا ، اوراپنی پشت کو تیری طرف لگادیا ، تیرے اجر کی خواہش رکھتے ہوئے اور تیرے عذا ب سے ڈرتے ہوئے ، تیرے بارگاہ کے سوا نہ کوئی جائے پناہ ہے اور نہ کوئی جائے نجات ، اور میں ایمان لایا تیری کتاب پر جو تو نے نازل کی اور ایمان لایا تیرے نبی پر جسے آپ نے ہماری طرف بھیجا ” ۔ اگر اس رات تمہاری موت ہوگئی تو فطرت اسلام پر ہوگی اور اگر بخیر وعافیت صبح کیا تو بڑا اجر حاصل کیا ، اور ان کلمات کو اپنی آخری گفتگو بناؤ ، حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ یاد کرنے کے لئے ان کلمات کو جب میں دہرانے لگا تو “ونبیک الذی ارسلت ” کے بجائے بدل کر ” ورسولک الذی ارسلت ” کہہ دیا ، تو آپ نے فرمایا : نہیں “ونبیک الذی ارسلت ” ہی کہو ۔
{ صحیح بخاری وصحیح مسلم }
تشریح : نیند موت کی بہن اور اس کی ایک ادنی شکل ہے کہ جس طرح مردہ دنیا ومافیہا سے بے خبر ہوجاتا ہے اسی طرح سونے والے کو بھی دنیا وما فیھا کی خبر نہیں رہتی اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :[اللهُ يَتَوَفَّى الأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا المَوْتَ وَيُرْسِلُ الأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآَيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ]{الزُّمر:42} ” اللہ تعالی ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرلیتا ہے اور جن کی موت {کی گھڑی ابھی } نہیں آئی ان کی نیند کے وقت قبض کرلیتا ہے ، پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہوتا ہے انہیں روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک مقرر وقت کے لئے چھوڑ دیتا ہے ، غور کرنے والوں کے لئے اس میں یقینا بہت سی نشانیاں ہیں ”
ا س آیت سے معلوم ہوا کہ حالت نیند میں تمام بندوں کی روح جب ایک گونہ قبض کرلی جاتی ہیں ، پھر عام روحیں تو بیداری کے وقت ان کے جسموں میں واپس کردی جاتی ہیں البتہ کچھ روحیں واپس نہیں کی جاتی بلکہ انہیں وفات کبری میں بدل دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں کہ بعض لوگ بخیر وعافیت سوئے لیکن دوبارہ بیدار نہ ہوسکے ، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تاکید کےساتھ ہدایت فرماتے تھے کہ جب سونے لگو تو اس سے قبل دھیان و اہتمام سے اللہ تعالی کو یاد کرلو ، اور اپنے ایمان کی تجدید کرلو ہوسکتا ہے کہ یہ تمہارا آخری سونا ہو ۔
زیر بحث حدیث بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انہیں ہدایات میں سے ایک ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس دعا کا اہتمام کرتے تھے {صحیح بخاری : 6315 } اور صحابہ کرام کو اس کی تعلیم دیتے تھے ،
اس حدیث میں اولا تو یہ تعلیم ہے کہ بندہ سونے سے پہلے اپنے ظاہر و باطن کو پاک وصاف کرلے ، ظاہر کی صفائی کے لئے اسے وضو کا حکم ہے اور باطن کی صفائی کے لئے اللہ تعالی پر اعتماد وتسلیم اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر پر کامل رضا کا ذکر ہے ، نیز اس حدیث میں اللہ تعالی سے خوف ومحبت اور اس کے اجر و ثواب کی امید کا بھی ذکر ہے جو عبادت کے اجزائے ترکیبی ہیں ، مزید یہ دیکھیں کہ اس دعا میں تجدید ایمان کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ” اے اللہ وہ مقدس کتاب جو آپ نے اتاری ہے اس پر میں ایمان لاتا ہوں اور وہ نبی جسے آپ نے ہماری طرف پیغمبر بناکر بھیجا ہے اس پر بھی ایمان لاتا ہوں گویا میرا ایمان اللہ تعالی کی ربوبیت و الوہیت کے ساتھ اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر بھی ہے اور اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ ثواب و عقاب اللہ تعالی ہی کے قبضے میں ہے جس سے معاد یعنی آخرت پر ایمان کی طرف اشارہ ہے اس طرح اگر غور کیا جائے تو اس حدیث میں مجملا ان تمام چیزوں کا ذکر ہے جن پر ایمان لانا بندوں کے اوپر واجب ہے اسی لئے اس دعا کو پڑھ کر سونے کے بعد جس شخص کی وفات ہوجائے گی وہ جنتی شمار ہوگا ، واقعۃ ًیہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معجزانہ دعاؤں میں سے ایک دعا ہے اور اس میں جو مضمون بیان ہوئے ہیں ان کے لئے اس سے بہتر الفاظ کو بڑے سے بڑا ادیب بھی تلاش نہیں کرسکتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔
ثانیا : اس حدث میں سونے سے قبل کے چند آداب بیان ہوئے ہیں :
[۱] وضو کرنا : اس کے کئی فائدے اہل علم نے ذکر کئے ہیں : ایک تو یہ کہ اگر موت آجائے تو بندے کی موت پاک حالت میں ہوتی ، دوم یہ کہ اگر بندہ باوضو سوتا ہے اور جب رات میں نیند کھلے اس وقت دین ودنیا کی بھلائی کی جو دعا بھی کرتا ہے اللہ تعالی اسے قبول فرماتا ہے {سنن اربعہ }
سوم یہ کہ جب بندہ باوضو سوتا ہے تو اس کے لحاف میں اس کے ساتھ ایک فرشتہ بھی رات گزارتا ہے جو اس کے لئے دعائے مغفرت کرتا ہے {صحیح ابن حبان و الطبرانی الاوسط }
چہارم یہ کہ شیطان سے حفاظت رہتی ہے اور اس حال میں دیکھا گیا خواب عموما سچا ہوتا ہے {فتح الباری } وغیرہ ۔
[۲] دائیں کروٹ سونا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول بھی یہی تھا ، جس کا فائدہ یہ ہے کہ دائیں کروٹ کی نیند غفلت کی نیند نہیں ہوگی اور چونکہ دل بائیں طرف ہوتا ہے اس لئے گہری نیند نہ آنے کی وجہ سے جلد بیدار ہوجاتا ہے ، نیز حکماء کا کہنا ہے کہ دائیں کروٹ لیٹنا صحت کے لئے مفید ہے ۔
[۳] دائیں ہاتھ پر سونا : جیسا کہ اس کا ذکر سنن ابو داود کی روایت میں ہے ، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی تھا کہ سوتے وقت آپ اپنا دایاں ہاتھ اپنے دائیں رخسار کے نیچے رکھ لیتے تھے { صحیح بخاری }
[۴] ذکر الہی : کسی بھی چیز کی ابتدا اور انتہا کے لئے افضل بلکہ تاکیدی حکم یہ ہے کہ ابتدا ذکر الہی سے ہو اور انتہا بھی ذکر الہی پر ہو ، نیز حدیث میں ہے کہ جو شخص لیٹنے سے قبل اللہ تعالی کا ذکر نہیں کرتا تو قیامت کے دن یہ اس کے لئے باعث حسرت ہوگا {ابو داود } ۔
فوائد :
۱- با وضو سونے کی فضیلت ۔
۲-سونے سے قبل ایمان و اسلام کی تجدید ۔
۳- نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت دعا میں رد وبدل نہیں کرنا چاہئے ۔
۴- ہر دم موت کی تیاری پر تنبیہ
ختم شدہ