ہفتہ واری دروس

دو کام اور اعلی انعام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :117

خلاصہٴ درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

 

عن جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رضي الله عنه ، يَقُولُ كُنَّا عِنْدَ النبي صلى الله عليه وسلم اِذْ نَظَرَ اِلَى الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ فَقَالَ ‏”‏ اَمَا اِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا الْقَمَرَ لاَ تُضَامُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ فَاِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ لاَ تُغْلَبُوا عَلَى صَلاَةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ‏”‏ ‏.‏فافعلوا، ثُمَّ قال ‏[وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا]

( صحيح البخاري :573، المواقيت / صحيح مسلم :633 ، المساجد )

ترجمہ : جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس {بیٹھے ہوئے }تھے کہ آپ نے چودہویں رات کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا : یاد رکھو کہ بلاشبہ تم اپنے رب کو آخرت میں اسی طرح دیکھو گے جس طرح تم لوگ اس چاند کو دیکھ رہے ہو کہ تمہیں اس کے دیکھنے میں کوئی مشقت محسوس نہیں ہوتی اور نہ کوئی زحمت ہوتی ہے ، پس اگر تم یہ کرسکو کہ طلوع آفتاب سے پہلی یعنی فجر اور غروب آفتاب سے پہلے کی نماز یعنی عصر کے مقابلہ میں کوئی چیز تم پر غالب نہ آئے {یعنی نماز فجر و عصر چھوٹنے نہ پائیں } تو تم ضرور ایسا کرو اس کے بعد بطور تائید کے { حضرت جریر بن عبد اللہ نے } یہ آیت پڑھی : [وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا]{طه:1300} ” پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے ” ۔

{صحیح بخاری وصحیح مسلم } ۔

تشریح : جب کوئی محب اپنے محبوب تک پہنچ جاتا ہے اور محبوب قیام وطعام کے ساتھ اس کی عمدہ خاطر داری کرتا ہے تو اس وقت محب کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے محبوب کا دیدار کرلے ، بلکہ یہ دیدار کی خواہش عمدہ سے عمدہ قیام وطعام پر بھی فوقیت رکھتی ہے اور حقیقی محبت کرنے والا اپنے محبوب کے دیدار کے مقابلے میں ان تمام چیزوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا ، بعینہ اسی طرح جنت میں اہل جنت کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوگی کہ وہ اپنے محبوب ومحسن رب ذو الجلال کا دیدار کرلیں چنانچہ اللہ تعالی ان کے اس جذبے کی قدر کرے گا اور انہیں اپنے دیدار سے سرفراز کرے گا ، یہ چیز متعدد آیتوں اور حدیثوں سے ثابت ہے اور اہل سنت وجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ اس دنیا میں تو نہیں البتہ آخرت میں اور بالخصوص جنت میں تمام اہل جنت رب ذو الجلال و الاکرام کے دیدار سے سرفراز ہوں گے : [وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ] [إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ] {القيامة:22-23}”

اس دن بہت سے چہرے تروتازہ اور بارونق ہوں گے ، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے ” ۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ نعمت صرف تمناؤں سے حاصل ہونے والی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے اپنے محبوب کی مرضی کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہے ، ایمان میں داخل ہونے کے بعد بالخصوص نماز فجر و عصر کا اہتمام اس نعمت کے حصول میں معاون ہے ،

زیر بحث حدیث میں اسی طرف رہنمائی کی گئی ہے ۔

پہلے تو اس حدیث میں دیدار باری تعالی کی کیفیت واضح کی گئی کہ اس دنیا میں جب کسی حسین وجمیل چیز کے دیکھنے والے لاکھوں کروڑوں جمع ہوجائیں اور سب اس کے دیکھنے کے انتہائی درجہ میں مشتاق ہوں ، تو ایسے موقعوں پر عموما بڑی کشمکش اور بڑی زحمت ہوتی ہے ، اور اس چیز کو اچھی طرح دیکھنا بھی مشکل ہوتا ہے ، لیکن چاند کا معاملہ یہ ہے کہ اس کو مشرق و مغرب کے آدمی بغیر کسی کشمکش اور زحمت کے ، اور پورے اطمینان سے بیک وقت دیکھ سکتے ہیں ، اسی چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال سے سمجھایا ، کہ جنت میں حق تعالی کا دیدار اسی طرح بیک وقت اس کے بے شمار خوش نصیب بندوں کو نصیب ہوگا ، اور کسی کو کشمکش اور زحمت سے سابقہ نہیں پڑے گا ، سب کی آنکھیں بڑے سکون و اطمینان سے وہاں جمال حق کے نظارہ کی لذت حاصل کریں گی ۔ اللھم اجعلنا منھم ۔

ثانیا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے عمل کی طرف بھی توجہ دلائی جو بندہ کو اس نعمت {دیدارحق } کا مستحق بنانے میں خاص اثر رکھتا ہے ، یعنی فجر وعصر کی نمازوں کا خصوصیت سے ایسا اہتمام کہ کوئی مشغولیت اور کوئی دلچسپی ان نمازوں کے وقت میں بندے کو اپنی طرف متوجہ نہ کرسکے ۔

پھر اگرچہ فرض تو پانچ نمازیں ہیں اور ان کی اپنی اہمیت ہے ، لیکن نصوص کتاب وسنت ہی سے مفہوم ہوتا ہے کہ ان دو نمازوں کو خاص اہمیت اور فضیلت حاصل ہے ، حدیث مذکورہ میں قرآنی آیت : [وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا] {طه:130}ان دو نمازوں کی اسی خصوصیت اور فضیلت کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

{معارف الحدیث :1/272 } ۔

اس حدیث میں نمازوں اور خصوصا فجر وعصر کی تخصیص اس لئے کی گئی کہ چونکہ نماز عبادات میں سب سے افضل عبادت ہے اور خصوصی طور پر فجر و عصر جو نیند و مشغولیت کے وقت میں ہونے کی وجہ سے کمزور ایمان والوں پر بہت بھاری پڑتی ہیں لہذا اگر کوئی شخص اس افضل عبادت اور اپنے مشغول ترین وقت میں اس کا اہتمام کرلیتا ہے تو وہ اس بات کا حقدار ٹھہرتا ہے کہ جنت کی سب سے عظیم نعمت سے نوازا جائے اور وہ نعمت دیدار الہی ہے [لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الحُسْنَى وَزِيَادَةٌ]{يونس:26} ”

جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے خوبی ہے {جنت اور اسکی نعمتیں ہیں }اور مزید برآن {دیدار الہی }بھی ۔

فوائد:

1) جنت میں مومنین کے لئے دیدار الہی برحق ہے ، البتہ کافروں کو اس سے محروم رکھا جائے گا :[كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ]{المطَّففين:15} “ہرگز نہیں یہ لوگ اس دن اپنے رب سے اوٹ میں رکھے جائیں گے ” ۔

2) نماز عصر و فجر کا اہتمام خصوصا جماعت کے ساتھ دیدار الہی کے اسباب میں ہے ۔

3) یہ دیدار الہی آخرت کے ساتھ خاص ہے اس دنیا میں کوئِی بھی شخص اللہ تعالی کو نہیں دیکھ سکتا ۔

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى