شیطان جب مایوس ہوتا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :118
خلاصہٴ درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ” إِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْتِهِ فَقَالَ:
”بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ ” .
قَالَ ” يُقَالُ حِينَئِذٍ هُدِيتَ وَكُفِيتَ وَوُقِيتَ فَتَتَنَحَّى لَهُ الشَّيَاطِينُ فَيَقُولُ لَهُ شَيْطَانٌ آخَرُ كَيْفَ لَكَ بِرَجُلٍ قَدْ هُدِيَ وَكُفِيَ وَوُقِيَ ” .
( سنن أبوداؤد :5095، الأدب – سنن الترمذي :3422 ، الدعوات )
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب آدمی اپنے گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھ لیتا ہے : “بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ ” .[میں اللہ تعالی کے نام سے نکل رہا ہوں ، اللہ تعالی ہی پر میرا بھروسہ ہے ، کسی خیر کے حصول اور کسی شر سے بچنے میں کامیابی اللہ تعالی کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے ] تو اس سے کہا جاتا ہے “اللہ کے بندے تجھے رہنمائی مل گئی ، تیری کفایت کی گئی اور تو بچالیا گیا ، اور شیطان اس سے دور ہوجاتے ہیں ، پھر ایک شیطان دوسرے شیطان سے کہتا ہے :ایسے شخص پر تیرا بس کیسے چل سکتا ہے جس کو ہدایت سے نواز دیا گیا وہ کفایت کیا گیا اور اس کی حفاظت کی گئی ۔ { سنن ابو داود وسنن الترمذی }
تشریح : بنی نوع انسان پر اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی نعمت یہ ہے کہ اسے گھر عطا کیا ہے جس میں رہکر ایک طرف وہ سکون و آرام حاصل کرتا ہے اور دوسری طرف دھوپ ، گرمی ، سردی اور بارش وغیرہ سے محفوظ رہتا ہے ، گھر ہی اس کے کھانے ، سونے کی جگہ ہوتی ہے گھر ہی میں وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ بیٹھ کر راحت نفس حاصل کرتا ہے ، وہ گھر ہی میں اپنی جنسی ضروریات کو پورا کرتا ہے ، گھر ہی ستر وعفاف کی جگہ ہے :[وَاللهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ سَكَنًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ جُلُودِ الأَنْعَامِ بُيُوتًا ]{النحل:80} ” اور اللہ تعالی نے تمہارے لئے گھروں میں سکونت کی جگہ بنادی ہے اور اس نے تمہارے لئے چوپایوں کی کھالوں کے گھر بنادیئے ہیں ” ۔
اور جب انسان اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے تو اسے مختلف قسم کے خطروں کا سامنا رہتا ہے ، دشمن کا خطرہ زہریلے جانوروں کا خطرہ ، حیوانی و انسانی درندوں کا خطرہ اور آج کے ماحول میں حادثات کے خطرے سب سے زیادہ عام ہیں ، مختلف لوگوں سے اس کا سامنا پڑتا ہے ، اگر اللہ تعالی کی مدد وتوفیق اس کے شامل حال نہ ہو اور اس کی دستگیری و حفاظت نہ کہ جائے تو کسی بھی جگہ ظلم وجہل کے دلدل میں پھنس سکتا ہے ، کسی ناکردنی میں مبتلا ہوسکتا ہے ، کسی سے جھگڑا ہوسکتا ہے اور وہ خود بھی کسی کے ساتھ ظالمانہ حرکت کرسکتا یا پھر کسی جاہل و بے وقوف کی جہالت وبے وقوفی کی نذر ہوسکتا ہے
اور ان تمام چیزوں سے خطرناک یہ کہ انسان کے پوشیدہ اور سب سے خطرناک دشمن یعنی شیطان ملعون کے وساوس وحرکات کا شکار بھی ہوسکتا ہے ، لیکن اگر بندہ اپنے گھر سے اللہ تعالی کا نام لے کر نکلے اور تمام امور کو اس کے سپردکرکے باہر قدم رکھے تو بڑی قوی امید ہے کہ اللہ تعالی کی مدد و توفیق ، اس کی حفاظت و دستگیری بندے کے ساتھ رہے گی پھر تو وہ ہر قسم کی مکروہات سے بچ جائے گا ، زیر بحث حدیث میں اسی امر کی طرف بندے کی رہنمائی ہے ، چنانچہ جب گھر سے نکلتے وقت کہتا ہے “بسم اللہ “ اللہ تعالی ہی کے نام سے اپنے نکلنے کی ابتدا کرتا ہوں اور اسی کے نام کی پناہ میں اپنے آپ کو دیتا ہوں ، پھر کہتا ہے :“توکلت علی اللہ “ اللہ تعالی ہی پر اس نکلنے میں میرا بھروسہ ہے اور اپنے تمام امور اسی کے سپر کررہا ہوں ، اس کے بعد کہتا ہے :“لاحول ولا قوۃ الا باللہ “ اور میرا یہ ایمان ویقین ہے کہ میں نہ کوئی نیکی کا کام کرسکتا ہوں اور نہ ہی کسی شر وبرائی سے بچ سکتا ہوں الا یہ کہ اللہ قادر مطلق اور منعم ومحسن کی مدد ہمارے شامل حال رہے “یہ دعا پڑھ کر جب بندہ اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اس کا صلہ یہ ملتا ہے کہ اللہ تعالی کے مبارک نام کی برکت سے اسے سچی رہنمائی مل جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ بھٹکتا نہیں اور اللہ تعالی پر توکل واعتماد کی برکت سے اس کے سخت اور اہم امور کے لئے اللہ تعالی کافی ہوجاتا ہے اور لاحول ولا قوۃ الا باللہ کہنے کی برکت کی وجہ سے وہ ہر قسم کی ظاہر و پوشیدہ بلا سے محفوظ ہوجاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب بندہ یہ دعا پڑھتا ہے اور عالم غیب سے یا فرشتوں کے ذریعہ اسے یہ تحفہ مل جاتا ہے کہ اے بندے تجھے پوری رہنمائی مل گئی ، اللہ تعالی تیرے لئے کافی اور تیرا محافظ بن گیا تو شیطان مردود جو انسان کا حقیقی دشمن ہے مایوس ہوجاتا ہے ، اس کا راستہ چھوڑدیتا ہے اور اس سے دور ہٹ کر اپنے دوسرے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ اب ایسے شخص کو کس طرح گمراہ کرسکتے ہو جسے اللہ تعالی کی طرف سے اس دعا کے پڑھنے کی توفیق مل گئی اور وہ اللہ تعالی کی کفایت وحفاظت میں آگیا ۔۔۔۔
E اے مسلمان ! کاشکہ تو اس دعا کی اہمیت کو سمجھتا اور گھر سے نکلتے وقت اپنا بایاں قدم باہر رکھتے ہوئے اس دعا کا اہتمام کرلیتا لیکن بڑی بدقسمتی ہے کہ بہت کم ایسے بندے ہیں جو اس دعا کا اہتمام کرتے ہیں ، سچ فرمایا رب ذو الجلال نے :[ وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ] {سبأ:13} ” اور میرے بندوں میں شکرگزار بندے کم ہی ہوتے ہیں ” ۔
فوائد :
1) گھر اللہ تعالی کی ایک بڑی اہم نعمت ہے ۔
2) گھر سے نکلتے وقت اس دعا کا اہتمام دنیاوی و دینی مصائب سے حفاظت کی ضمانت ہے ۔
3) شیطان کے شر سے حفاظت کا سب سے اہم ذریعہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی پناہ میں آیا جائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : شیطان کو برا بھلا کہنے کا شیوہ نہ بنالو [کیونکہ تمہارے اسے برا بھلا کہنااس کی عداوت کو نہ روکے گا البتہ ] اس کےشر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو [کیونکہ حقیقت میں وہی ہے جو شیطان کے شر کو روک سکتا ہے ] ۔ {الصحیحہ : 2422 } ۔
ختم شدہ