ہفتہ واری دروس

نیک نیت مگر ناکام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :119

خلاصہٴ درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

عن عَائِشَةُ رضي الله عنها قالت : قال رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مَنْعَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ‏”‏ ‏.

‏( صحيح مسلم :1718 ، الأقضية – مسند أحمد :6/146 )

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کی بابت ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ ناقابل قبول ہے ۔ { صحیح مسلم ، مسند احمد }

تشریح : اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک مقبول عمل وہی ہوگا جو “صالح ” ہو اس کے برخلاف جو عمل صالح و طیب نہ ہوگا وہ باری تعالی کے نزدیک مردود اور ناقابل قبول ہوگا ، اہل علم کہتے ہیں کہ کسی بھی عمل کے صالح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ سنت کے مطابق ہو کلمہٴ اسلام “لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ ” کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ عبادت صرف اللہ تعالی کی کی جائے اور طریقہٴ عبادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو ۔

زیر بحث حدیث میں بھی یہی اصول بیان ہوا ہے کہ ہر وہ کام جسے نیکی اور ذریعہٴ تقرب الہی سمجھ کرکیا جائے درآں حالیکہ اس پر کتاب و سنت کی کوئی دلیل نہ ہو یا وہ نصوص شریعت کی اس تعبیر سے مختلف جو صحابہ و تابعین نے کی ہے ، ذیل کا قصہ اس کی واضح دلیل ہے حضرت عمرو بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نماز فجر سے قبل حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے پر بیٹھ جاتے اور جب وہ گھر سے نکلتے تو ان کے ساتھ مسجد روانہ ہوجاتے ، ایک دن ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے پاس حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور کہا کہ کیا ابو عبدالرحمن [عبد اللہ بن مسعود] نکل گئے ؟ ہم نے جواب دیا : نہیں ، یہ سن کر ابو موسی بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے ، یہاں تک کہ ابن مسعود باہر نکلے اور ہم سب ان کی طرف بڑھے ، حضرت ابو موسی اشعری ان سے مخاطب ہوئے اور کہا : اے ابوعبد الرحمن میں ابھی ابھی مسجد میں ایک نئی بات دیکھ کر آرہا ہوں ابن مسعود نے کہا ، وہ کیا ؟ حضرت ابو موسی نے عرض کیا کچھ لوگ نماز کے انتظار میں مسجد کے اندر حلقے بنائے بیٹھے ہیں ، سب کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں اور ہر حلقے میں ایک آدمی متعین ہے ، جو ان سے کہتا ہے کہ سوبار اللہ اکبر کہو ، تو سب لوگ سوبار اللہ اکبر کہتے ہیں ، پھر کہتا ہے کہ سوبار الحمد للہ کہو تو سب لوگ سوبار الحمد للہ کہتے ہیں پھر کہتا ہے کہ سو بار سبحان اللہ کہو تو لوگ سوبار سبحان اللہ کہتے ہیں ۔

یہ سن کر حضرت عبد اللہ بن مسعود حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ پھر تم نے ان لوگوں سے کیا کہا ؟ حضرت ابو موسی نے جواب دیا کہ میں نے سوچا کہ آپ کی رائے معلوم کرلوں حضرت ابن مسعود نے فرمایا : تم نے ان سے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ اپنے گناہ شمار کرو ، میں اس بات کی ضمانت لیتا ہوں کہ تمہاری نیکیاں ضائع نہ ہوں گی ۔

بہر حال یہ کہہ کر حضر ت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد کی طرف روانہ ہوئے اور ان حلقوں میں سے ایک حلقہ کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا : یہ کیا کر رہے ہو ؟ لوگوں نے جواب دیا : اے ابو عبد الرحمن ! یہ کنکریاں ہیں جن پر ہم تسبیح وتہلیل اور تکبیر گن رہے ہیں ، حضرت ابن مسعود نے فرمایا : بجائے اس کے تم اپنے گناہوں کو شمار کرو اور میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری کوئی نیکی ضائع نہ ہوگی ، تعجب ہے ! اے امت محمد کہ تم کتنی جلدی ہلاک و گمراہ ہوگئے حالانکہ ابھی تک تمہارے نبی کے صحابہ کثیر تعداد میں موجود ہیں ، ابھی تمہارے نبی کے چھوڑے ہوئے کپڑے نہیں پھٹے اور نہ ہی ان کے برتن ٹوٹے ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم یا تو ایک ایسی شریعت پر چل رہے ہو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت سے – نعوذ باللہ – بہتر ہے یا پھر تم لوگ گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو ، لوگوں نے جواب دیا ، اے ابو عبد الرحمن ! اللہ کی قسم ، اس طرز عمل سے خیر کے سوا ہمارا کوئی مقصد نہیں ہے ، حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا : خیر وبھلائی کے کتنے طلب گار ایسے ہیں جو خیر وبھلائی کو حاصل نہیں کرپاتے چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتلایا ہے کہ ایک قوم ایسی ہوگی جو قرآن تو خوب پڑھے گی مگر قرآن ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا ، اللہ کی قسم میں [غیب تو ] نہیں جانتا ، البتہ شاید ان میں سے اکثر تم ہی میں سے ہوں ۔

یہ باتیں کہہ کر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وہاں سے رخصت ہوگئے ، راوی حدیث حضرت عمرو بن سلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے ان حلقوں کے عام لوگوں کو دیکھا کہ نہروان کی جنگ میں خوارج کے ساتھ ملکر ہمارے اوپر نیزے [اور تیر] برسا رہے تھے ۔

{سنن دارمی :1/68-69} ۔

حدیث اور اس لمبے قصے سے کئی فائدے حاصل ہوئے :

1) اعتبار بہت زیادہ عمل کا نہیں ہے بلکہ سنت کے موافقت کا اعتبار ہے ۔

2) جو عمل جس طریقے سے مشروع ہے اس کے خلاف کوئی بھی طریقہ بدعت ہوگا ۔

3) بدعت سنت کی حریف ہے کیونکہ جو لوگ تسبیح کے دانوں وغیرہ پر تسبیح پڑھتے ہیں وہ ہاتھوں اور پوروں پر تسبیح پڑھنے کی سنت سے غافل ہوجاتے ہیں ۔

4) بدعت ہلاکت کا سبب ہے تبھی تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ اے امت محمد ! تم لوگ کتنی جلد ہلاک [گمراہ ] ہوگئے ۔

5) چھوٹی بدعت ایک بڑی بدعت بلکہ بسا اوقات کفر وشرک تک پہنچا دیتی ہے ، جیساکہ ان حلقے والوں کا حشر ہوا ۔

6) صرف اچھی نیت کسی عمل صالح اور مقبول ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سنت سے مطابقت ضروری ہے ۔

7) بدعت یا باہمی اختلاف انشقاق کا دروازہ کھولتی ہے ۔

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى