فرشتے کی دعا وبد دعا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :121
خلاصہٴ درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ما من يوم يصبح العباد فيه إلا ملكان ينزلان ؛ فيقول أحدهما : اللهم ! أعط منفقاخلفا . ويقول الآخر : اللهم ! أعط ممسكا تلفا .
( صحيح البخاري :1442 ، الزكاة – صحيح مسلم :1010، الزكاة )
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہردن جس میں بندے صبح کرتے ہیں ، دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ، ان میں سے ایک فرشتہ [دعا دیتے ہوئے] کہتا ہے اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو اس کا [بہترین ] بدلہ عطا فرما اور دوسرا فرشتہ [بد دعا دیتے ہوئے] کہتا ہے اے اللہ ! روک کر رکھنے والے [کے مال]کو ضائع کردے ۔
{ صحیح بخاری وصحیح مسلم } ۔
تشریح : ارشاد باری تعالی ہے : [فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى(5) وَصَدَّقَ بِالحُسْنَى(6) فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى(7) وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى(8) وَكَذَّبَ بِالحُسْنَى(9) فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى(10) وَمَا يُغْنِي عَنْهُ مَالُهُ إِذَا تَرَدَّى(11) ]. {الليل}.
” پس جس شخص نے [اللہ تعالی کی راہ میں ] مال دیا اور ڈرا اور نیک بات [یا اچھے صلے] کی تصدیق کی تو ہم بھی اس کو آسان راستے [نیکی و اطاعت ] کی سہولت دے دیں گے، لیکن جس نے بخالت سے کام لیا اور لاپرواہی برتی اور نیک بات [یعنی آخرت کے جزا ] کو جھٹلایا تو ہم بھی اس کے لئے تنگی ومشکل [کفر ومعصیت ] کے سامان میسر کردیں گے اور جب وہ اوندھے منہ گرے گا تو اس کا مال اس کے کچھ کام نہ آئے گا” ۔
یعنی جس شخص نے اللہ تعالی کے دئے ہوئے مال میں سے خرچ کیا اور اپنے رب سے ڈرتا رہا کہ اس کی یہ امانت جو مال کی شکل میں اس کے پاس موجود ہے اس میں خیانت سے بچتا رہا اور اللہ تعالی کی راہ میں خرچ پر اچھے بدلے کا جو وعدہ ہے اس پر ایمان رکھتا رہا تو ہم اسے مزید خرچ کرنے کی سہولت ، مال میں برکت دیں گے اور آخرت میں بہترین جزاء سے نوازیں گے لیکن اس کے برخلاف جو خرچ میں بخالت سے کام لیتا رہا ، ما ل کے واجبی ومستحب حق کو ادا کرنے سے جی چراتا رہا اور اللہ کی راہ میں خرچ پر جو اچھے بدلے اور عمدہ ثواب کا وعدہ ہے اسے جھٹلاتا رہا تو اللہ تعالی بھی اسے گناہ و معصیت ہی کی توفیق دے گا اور اس کا جمع کیا ہوا یہ مال اس کے لئے دنیا و آخرت میں ہلاکت وبربادی کا سبب بنے گا ۔
یہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ جس مشاہدہ اس دنیا میں ہورہا ہے اور آخرت میں بھی اس کا مشاہدہ ہوگا ، اسی چیز کو زیر بحث حدیث میں بھی ایک اورانداز میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر روز جب صبح کی پو پھٹتی ہے تو اللہ تبارک وتعالی دو فرشتوں کو اس دنیا میں بھیجتا ہے ، ایک فرشتہ مال کا حق ادا کرنے والوں کے لئے دنیا میں برکت و زیادتی اور آخرت میں نیک بدلے کی دعا کرتا ہے کہ اے اللہ تعالی جو بندہ تیرے دئے ہوئے مال کو اس کے جائز مقام پر خرچ کرے اس کے مال میں برکت دے ، اس کے مال کو دنیاوی آفت و مصیبت سے بچا، اسے تلف ہونے اور برباد ہونے سے محفوظ رکھ اور آخرت میں اسے بہترین اجر سے نواز برخلاف اس کے جو شخص تیرے دئے ہوئے مال کے حق کو ادا نہ کرے ، نہ ہی اسے جائز جگہ میں صرف کرے تو اس کے بارے میں دوسرا فرشتہ اس کےلئے اس طرح بد دعا ئیں دیتا ہے کہ اے اللہ جس طرح اس نے تیرے دئے ہوئے مال کو تیری مخلوق سے روک رکھا اسی طرح تو بھی اس کے مال سے برکت کو روک لے ، اس سے نیک عمل کی توفیق کو ختم کردے ، اس کے مال کو اس کے لئے پریشانی ، الجھن اور بربادی کا سبب بنا اور آخرت میں اسے جہنم کے عذاب میں ڈھکیل دے ۔
کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو فرشتے کی اس دعا کے مستحق ٹھہرتے ہیں ہر صبح اپنی ڈیوٹی پر جانے سے قبل اپنے اہل وعیال کو جائز خرچ کے لئے حسب حاجت رقم دیتے ہیں ، اپنے پڑوس میں موجود کسی غریب ، بیوہ ، یتیم اور فقیر و مسکین کی ضرورت کا خیال رکھتے ہیں ہر دن کسی مہمان کی آمد کا انتظار کرتے ہیں ، اپنے گھر میں کوئی ایسا نظام رکھتے ہیں کہ ہر روز صبح کو کم یا زیادہ کوئی متعین مبلغ بطور صدقہ کے نکال کر رکھ دیتے ہیں جو وقت ضرورت صاحب حاجت کو دی جاسکے وغیرہ وغیرہ ، اگر ہم نے اپنی ایسی عادت بنالی ہے تو ہمیں خوشخبری ہے کہ ہم فرشتے کی اس دعائے خیر کے مستحق ٹھہر رہے ہیں ، اور کس قدر بد نصیب ہیں وہ لوگ کہ مال کی محبت ان کے رگوں میں رچی بسی ہے ، نہ زکاۃ دیتے ہیں ، نہ ہی اہل وعیال کے واجبی خرچ کا اہتمام کرتے ہیں ، نہ ہی غریبوں ، مسکینوں کے لئے ان کے مال میں کوئی حصہ ہے تو یاد رہے کہ اس حدیث میں وارد بد دعا کا ایک بڑا حصہ ہمارے ساتھ ہے ۔ ۔۔۔۔۔ عیاذ ا باللہ ۔۔۔۔۔
فائدے :
1) جس مال کا حق ادا کیا جائے وہ مال بابرکت اور باعث اجر وثواب ہے ۔
2) مال کو جائز جگہ میں صرف کرنے سے نیک عمل کی توفیق ملتی ہے ۔
3) نیک لوگوں کے لئے فرشتے دعائے خیر کرتے ہیں ۔
4) بداعمالی دنیا و آخرت میں انسان کی ہلاکت کا سبب بنتی ہے ۔
ختم شدہ