بارش اور اسوہَ نبوی
بسم الله الرحمن الرحيم
حدیث نمبر122
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا، رای المطر قال : اللھم صیبا نا فعا ۔
{صحیح البخاری : 1032الاستسقاء۔ سنن ابن ماجہ ،3890۔ الدعاء/مسند احمد 6ص41 }
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بارش {کے آثار}دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے ”
اللھم صیبا نافعا ” اے اللہ اسے نفع بخش بارش بنا ۔ { صحیح بخاری ، سنن ابن ماجہ }
تشریح : بارش اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے ، بارش ہی اس روئے زمین پر پانی کا اصل مصدر ہے ، بارش نہ ہو اور متواتر دھوپ ہی دھوپ رہے تو پانی کی تہ نیچے چلی جائے ، چشمے ، کنویں ، نہریں اور دریے خشک ہو جائیں ، ہوا میں ناقابل برداشت گرمی پیدا ہو جائے، غلے اور پھلوں کی پیدائش بند ہوجائے ،درخت اور کھیتیاں سوکھ جائیں حتی کہ جسم انسانی بھی سوکھ جائے اور قسم قسم کے امراض اہل زمین کو کھیر لیں ،جس کی وجہ سے زندگی اجیرن بن جائے ، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اگر زمیں پر متواتر بارش ہی ہوتی رہے اور دھوپ دکھائی نہ دے تو زمین پر سیلاب آجائے ، کھیتیاں برباد ہوجائیں ، میوے اور پھل خراب ہوجائیں ،سبزیوں اور سبزہ زاروں پرسڑان پیداہوجائے ، آمد ورفت کاسلسلہ منقطع ہوجائےکا روبار ٹھپ پڑجائے حتی کہ جسم انسانی ڈھیلے پڑجائیں اور مختلف قسم کے امراض اہل دنیا کو گھیر لیں ۔
اسلئے اللہ تعالی نے اس دنیا میں نہ متواتر بارش کا نظام رکھا ہے اور نہ ہی متواتر دھوپ اور خشکی، کا بلکہ اہل زمین پر بطور رحم کے دونوں کیلئے الگ الگ موسم اور الگ الگ مقدار رکھی ہے ، {وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلاَّ عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ(21) الحجر}ہر چیز کا خزانہ میرے ہی پاس ہے اور ہم اسے ایک متعین مقدار ہی میں نازل کرتے ہیں} یہی وجہ ہے کہ جس سرزمین کو جس مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے اگر وہاں کے باشندوں کے اپنے برے کرتوتوں کے عوض پانی کی کافی مقدار اللہ تعالی نازل نہیں فرماتا تو وہاں خشک سالی آجاتی ہے اور قحط پیدا ہوجاتا ہے اور اگر اس سرزمین پر اسکی ضرورت سے زیادہ بارش نازل ہوجائے تو یہی پانی جو کائنات کی ایک عظیم نعمت ہے نقمت اور خوفناک عذاب کی شکل اختیار کرلیتا ہے ، جس کا مشاہدہ آج کل ہم کر رہے ہیں ، زمین کے ایک خطے میں تو پانی کی قلت کی وجہ سے مخلوق پریشان ہے جبکہ اسی روئے زمین کے دوسرے خطے میں بارش کی کثرت ایک عذاب کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔
ساتھیو :” ہمیں چاہئے کہ ہم اس موقعے پر چندہدایت نبوی کا اہتمام کریں۔
1 : پانی اللہ تعالی کی نعمت ہے اور وہی پانی نازل کرتا ہے لہذا اسکینسبت اللہ تعالی ہی کی طرف کرنا چاہئے اور اسے موسمی صورت حال وغیرہ کا نام دیکر اپنے گناہوں پر پردہ نہیں ڈالنا چاہے ، حضرت زید بن خالد سے روایت ہے کہ حدیبیہ میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ اسی رات بارش ہوئی تھی۔جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فر مایا : کیا تم جانتے ہو کہ تمھارے رب نے کیا کہا ؟ صحابہ نے عرض کیا “اللہ اور اسکے رسول بہتر جانتے ہیں ” آپ نے فر مایا : اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میرے بندوں نے اس حال میں صبح کی کہ کچھ مجھ پر ایمان لانے والے تھے اور بعض میرے ساتھ کفر کرنے والے تھے ، جس نے یہ کہا کہ اللہ کے فضل اور اسکی رحمت سے ہم پر بارش ہوئی پس یہ مجھ پر ایمان لانے ولا ہے اور ستاروں {کے تصرف}کا منکر ہے ، اور جس نے یہ کہا کہ ہمیں فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش نصیب ہوئی تو وہ میرے ساتھ کفر کرنے والاہے اور ستاروں پر ایمان لانے ولاہے
{صحیح بخاری و مسلم }
2 : بدلی دیکھے تو اسکی کیفیت خوف رجا کی ہو اور اللہ تعالی سے خیر کی دعا کرے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب آسمان پر بادل چھاجاتے تو آپ صلى الله عليه وسلم کا رنگ بدل جاتا ، آپ باہر جاتے اندر تشریف لاتے ، آگے بڑھتے اورپھر پیچھے ہٹتے ، پھر جب بارش ہوجاتی تو آپ خوش ہو جاتے ۔ {مسلم} زیر بحث حدیث میں ایسے موقعہ سے متعلق ایک دعا کا ذکر ہے کہ اے اللہ یہ بارش ہمارے لئے فائدہ مند بارش ہو ” اسے رحمت کی بارش بنا ، عذاب اور نقمت کی بارش اور نہ ہی تباہی وبربادی پھیلانے والی بارش ہو ،
3 : بارش کا نزول ہو رہاہو تو خیر وبھلائی کی دعا کرنا نہ بھولے ” ارشاد نبوی ہے کہ تین موقعوں پر دعا کی قبولیت طلب کرو ۔”
1 : دونوں فوجوں کے مڈبھیر کے وقت ،
2 : نماز کی اقامت کے وقت ،
3 : بارش کے نزول کے وقت ۔ {الام للامام الشافعی ۔ الصحیحہ 1469}
4 : بارش کے پانے کا کچھ حصہ اپنے جسم پر بھی لے : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے ساتھ تھے ، بارش ہونے لگی تو آپ نے کپڑے سمیٹ لئے یہاں تک کہ بارش کے قطرے آپ کے جسم پر پڑنے لگے ، ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ آپ نے فر مایا کیونکہ یہ اپنے رب کے پاس سے ابھی آرہی ہے ۔
5: بادل کی کرج سنے تو کہے ، {سبحان الذي َيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلاَئِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ }پاک ہے وہ ذات کہ رعد {کڑک }حمد وثنا کے ساتھ اسکی تسبیح کرتی ہے اور فرشتے بھی اسکے خوف سے ، کیونکہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے ایسا ثابت ہے {موطاامام لک }
فائدے :
1 :پانی اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے اسلئے اسے برا نہیں سمجھنا چاہئے ۔ 2 : اگر پانے سے کوئی نقصان ہو تو اللہ تعالی سے اس سے بچنے کی دعا کرنی چاہئے ۔ 3 : بدلی کی گرج وچمک چونکہ اللہ تعالی کے حکم سے ہے اس لئے گرج کوباری تعالی کی تسبیح سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
ختم شده