اسلام اور رفاہِ عامہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :123
خلاصہٴ درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
{صحیح البخاری : 1445الزکاۃ۔ صحیح مسلم ،1008۔ الزکاۃ }عن ابی موسی الاشعری رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: علی کل مسلم صدقۃ،قالوا : یا نبی اللہ فمن لم یجد؟ قال:یعمل بیدہ فینفع نفسہ ویتصدق قالوا:فان لم یجد؟قال:یعین ذالحاجۃ الملہوف قالوا:فان لم یجد؟قال: فیعمل بالمعروف قالوا:فان لم یفعل؟فیمسک عن الشر فانہا لہ صدقۃ ۔
ترجمہ :
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ہر مسلمان کے لئے صدقہ کرنا ہے ، صحابہ نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ﷺ اگر صدقہ کرنے کیلئے وہ کچھ نہ پائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :تو اپنے ہاتھ سے محنت مزدوری کرے ، اپنے آپ کو بھی نفع پہنچائے اورصدقہ بھی کرے ، صحابہ نے عرض کیا:اگر یہ بھی نہ کرسکے ؟ آپ ﷺنے فرمایا : تو خستہ حال حاجت مند کی مددکردے، صحابہ عرض کیا : اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے ؟آپ ﷺنے فرمایا : بھلائی کا حکم دے {اور برائی سے روکے}عرض کیا:اگر اس سے یہ بھی نہ ہوسکے ؟ آپ ﷺنے فرمایا :تو برے کام سے رک جائے ، یہ بھی اسکے لئے ایک قسم کا صدقہ ہے ،
{ صحیح بخاری و صحیح مسلم }
تشریح :
ضرورت مند کی مدد ، اللہ کی مخلوق پر رحمت وشفقت ،حاجت مندوں کی حاجت براری اور دیگر رفاھی کام اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہیں، صلہ رحمی ، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک ، یتیموں بیواوَں اور خستہ حال لوگوں کی خبر گیری ،ایمان کی شاخوں میں سے ہیں ،نبی کریم ﷺکی ابتدائی دعوت میں رفاھی کاموں کی طرف خصوصی توجہ دی گئ تھی بلکہ یہ ایسی چیز تھی جو نبوت سے پہلے بھی آپ ﷺ کی سرشت میں پیوست اور آپ کے نمایا ں کاموں میں سےتھی ، چنانچہ جب پہلی بار وحی کے نزول کے بعد آپ کو اپنے اوپر خطرہ محسوس ہوا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا تھا ، “قطعا نہیں ، اللہ کی قسم اللہ تعالی آپ کو کبھی بھی رسوا نہ کریگا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ،درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، تہی دستوں کا بندوبست کرتے ہیں ، مہمان کی میز بانی کرتے ہیں اور حق کی طرف سے نازل شدہ مصائب پر لوگوں کی اعانت کرتے ہیں ” {صحیح بخاری }،مکی دور کے ابتدائی مرحلہ میںحضرت عمروبن عبسہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ آپ کو کیا دیکر بھیجا گیا ہے ؟ آپ فر ماتے ہیں کہ میری بعثت صلہ رحمی ،بتوں کو توڑنے اور اللہ وحدہ لاشریک لہ کی توحید کیلئے ہوئی ہے {صحیح مسلم}،مدنی دور کے بالکل ابتدائی دور میں حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور آپ کی زبان مبارک سے جو سب سے پہلی بات سنتے ہیں اسمیں بھی رفاھی کاموں کی طرف دعوت ہے “چناچہ آپ سے میں نے جو سب سے پہلی بات سنی وہ یہ تھی کہ اے لوگو:سلام پھیلاوَ ، کھانا کھلاوَ، صلہ رحمی سےکام لو، رات میں لوگ سورہے ہوں تو نماز پڑھو ،اس طرح جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاوَگے
{مسنداحمد ، سنن الترمذی}
زیر بحث حدیث میں بھی مسلمانوں کو رفاھی کاموں پر ابھارا گیا ہے حتی کہ کسی بھی مسلمان کو خواہ چھوٹا ہے یا بڑا ، مالدار ہے یا غریب کسی کو بھی اس سے معذورنہیں سمجھا گیا ، چنانچہ آپ نے ترغیب وتاکید کےانداز میں فر مایا کہ ہر شخص کیلئے صدقہ کرنا ہے خواہ یہ صدقہ وجوبی طور پر ہو یا تاکیدی طور پر ، ایک دوسری حدیث میں اسکی یوں تاکید فر مائی کہ :تم میں کا ہر آدمی جب صبح کرتا ہے تو اسکے ذمے اسکے ہر جوڑ پر صدقہ مقرر ہوتا ہے
{صحیح مسلم بروایت ابوذر}لیکن چونکہ ہر شخص صاحب مال نہیں ہوتا بہت سے لوگ خستہ حال ہوتے ہیں اسلئے صحابہ نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی {آپ پر اللہ تعالی کی رحمت نازل ہو }تنگ دستی ومحتاجی کی وجہ سے ہم میں کا ہر شخص صدقہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ، پھر ایسی حالت میں وہ کہاں سے صدقہ کرے ؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ کوئی کام کرے ، کسی چیز کا بنانا سیکھے ، محنت ومزدوری کر کے کچھ حاصل کرے جس سے خود بھی مستفید ہو اور صدقہ دیکر دوسروں کو بھی مستفید کرے ، البتہ ہاتھ پر ہاتھ رکھکر بیٹھا نہ رہے ‘، صحابہ نے پھر عرض کیا : اے اللہ کےنبی ،کوئی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی ہنر نہیں جانتا اور نہ ہی کسی وجہ سے محنت و مزدوری کرسکتا ہے تو وہ کسطرح صدقہ کرے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ایسے شخص کو چاہئے کہ کسی درماندہ ، خستہ حال کی مدد کرے، اسکابوجھ اٹھا کر پہنچادے اسکی خدمت کردے ، اسکی طرف سے دفاع کردے یا اسکی ضرورت کا سامان بازار سے لاکر رکھ دے ، صحابہ نےپھر عرض کیا :اے اللہ کے نبی :اگر کوئی بالکل ہی نکما ہو اور اس سے یہ بھی نہ ہوسکے تو وہ کیا کرے ؟ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اسے چاہئے کہ لوگو ں کو نیکی اور بھلائی کی باتیں بتلائے اور برے اور گندے کاموں سے روکے، یہ اسکےلئے صدقے کا بدل ہوگا ، صحابہ نے عرض کیا “اے اللہ کے رسول :اگر کوئی شخص بہت ہی بزدل ہو اور اس سے یہ کام نہ ہوسکے تو وہ کیا کرے ؟ آپ ﷺنے فرمایا :وہ شر اور برائی کے کام سے رک جائے نہ کسی کو اپنے قول وعمل سے تکلیف دے اور نہ ہی خود کسی گناہ کے کام کے قریب جائے اگر اس نے ایسا کرلیا اور اللہ تعالی سے ثواب و اجر کی امید رکھی تو یہ بھی اسکے لئے صدقہ ہے کیونکہ اسطرح اس نے اللہ تعالی کی مخلوق کق اپنے شرسے محفوظ رکھا تو گویا انکے ساتھ احسان کیا اور گناہ سے رک کر خود اپنے آپ پر صدقہ واحسان کیا کہ اسے اللہ کے عذاب وغضب سے بچالیا۔
فائدے :
1 : اللہ کی مخلوق پر شفقت ورحمت ضروری ہے خواہمال کی ذریعے ہو یاا ن سے شرکو روک کر ۔
2 : جوشخص مال سے صدقہ نہیں کرسکتا اسے دیگر اعمال خیر کا اپنانا چاہئے ۔
3 : رفاھی کام کی ذمہداری ہر مسلمان پر ہے اور ہر ایک سے حسب استطاعت اسکا مطالبہ ہے ۔
4 : برائی کے کام سے رک جانا اور اللہ کی مخلوق کو اپنے شر سے بچانا بھی نیکی کا کام اور قرب الہی کاذریعہ ہے ۔
ختم شده