آمین بالجہر وحسد یہود
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث نمبر124
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عن عائشۃ رضی اللہ عنہا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: ماحسدتکم الیہود علی شیئ ماحسدتکم علی السلام والتامین ۔
{ البخاری فی الادب المفرد : 988 ۔ سنن ابن ماجہ :856 ۔ صحیح ابن خزیمہ : 1585 }
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا : یہود قوم {تمھارے آپس میں }سلام کرنے اور {امام کے پیچھے }آمین بولنے پر جسقدر حسد کرتی ہے اسقدر کسی اور چیز پر حسد نہیں کرتی ۔
{الادب المفرد للبخاری،سنن ابن ماجہ،صحیح ابن خزیمہ}
تشریح : چونکہ اللہ تعالی نے یہود قوم کو اپنے وقت میں سب سے افضل امت قرار دیا تھا اور ان پر اپنی گونا گوں نعمتیں نازل فرمائی تھیں ،اسلئے انھیں ایک قسم کا زعم اور کبر یہ لاحق ہوا کہ ہم اللہ تعالی کے چہیتے ہیں ، اور یہ کہ دنیا وآخرت کی ساری الہی نوازشوں کے حقدار ہمیں ہی ہونا چاہئے خواہ ہمارے عمل کیسے ہی ہوں ، اللہ خالق ومالک کی خواہ کتنی ہی نافرمانیا ںہم کر جائیں ، اللہ کے نبیوں اور اسکی نازل کردہ کتابوں کی خواہ کتنی ہی مخالفت کرجائیں ، اس سے ہماری فضیلت و خیریت میں کوئی اثر نہیں پڑتا ، دنیا کی باقی قومیں ہمارے سامنے حقیر اورہم سے کمتر ہیں۔لہذا جب آخری نبی یہود قوم {بنو اسرائیل }کے بجائے قریش اور بنی اسماعیل سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں مبعوث ہوئےاور بنی اسرائیل سے یہ عظیم منصب چھین لیا گیا تو اس نبی اور اسکے ماننے والوں سے متعلق انکے دلوں میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی اور ہر طرح سے نبی رحمت اور آپکے متبعین کو نقصان پہنچانے کے لئے کو شاں رہے اور ان سے جلن رکھنے لگے ، جسکا ذکر اللہ تعالی نے متعدد بار قرآن مجید میں کیا ہے : وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّاراً حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ{البقرۃ109} اہل کتاب میں کہ اکثر لوگ باوجود حق واضح ہوجانے کے محض حسد و بغض کی بنا پر تمھیں بھی ایمان سے ہٹادینا چاہتے ہیں ۔خاص کر بعض وہ اعمال جو آدم علیہ السلام سے لیکر تمام انبیا ء علیہم السلام کی میراث کے طور پر چلے آرہے تھے لیکن کفار ویہود نے انھیں محض جہالت ، عناد اور تقلید کی بناپر ترک کردیا تھا اور امت مسلمہ اس پر عمل پیرا ہوئی تو اسلام کے دشمنوں کو یہ چیز قطعا نہ بھائی کہ اس پر عمل کرتے دیکھکر وہ مسلمانوں سے چڑھنے اور جلن رکھنے لگے ، اور یہ جلن و حسد انکے اندر اسطرح گھر کرگئی کہ بسا اوقت اسکا اظہار بھی کردیا کرتے تھے ، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک بار میں خدمت نبوی میں موجود تھی کہ ایک یہودی نے آپکی مجلس میں حاضری کی اجازت چاہی آپ نے اسے اجازت دے دی ، اور جب وہ داخل ہوا تو سلام کرتے ہوئے کہتا ہے” السام علیک” {آپکے اوپر موت ہو }یعنی بجائے واضح لفظوں میں “السلام علیک “کہنے کے الفاظ کو دباکر السام علیک کہتا ہے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسکی اس چال کو سمجھ گئے اورفرمایا”وعلیک”اور تم پر بھی ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں اسکی اس بدتمیزی پر میں نے کچھ کہنا چاہا
{لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں خاموش رہی }پھر ایک دوسرا یہودی داخل ہوا اور اس نے بھی ایسا ہی کیا ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکا جواب بھی “وعلیک “سے دیا ، پھر تیسرا یہودی آیا اور اس نے بھی اسی طرح “السام علیک” کہا اور اسکا بھی جواب نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے وعلیک کہکر دیا ، اب جب مجھ سے نہ رہا گیا تو میں نے غصے میں آکر کہا “اے بندروں اور سوروں کی اولاد تم پر ہلاکت اور اللہ تعالی کا غضب نازل ہو کیا تم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ میں سلام کرتے ہو جن الفاظ میں اللہ تعالی نے آپ کو سلام نہیں کیا ہے ، یہ سنکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ” رکو” اللہ تعالی بدکلامی و بدزبانی کو پسند نہیں فرماتا ، ان {بدبختوں }نے ایک بات کہی اور ہم نے اسکا جواب دے دیا ، انکی بات تو ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچائے گی البتہ میری بددعاان پر قیامت تک مسلط رہے گی ،واقعہ یہ ہے یہ یہود جسقدر ہم سے ان باتوں میں چڑھتے ہیں کسی اور بات میں نہیں چڑھتے کہ
1 : اللہ تعالی نے ہمیں یوم جمعہ کی تو فیق بخشی اور وہ اس سے بھٹک گئے ،
2: اللہ تعالی نے ہمیں قبلہ {ابراہیمی }کی تو فیق بخشی اور وہ اس سے بھٹک گئے ،
3 : اور اللہ تعالی نےہمیں امام کے پیچھے آمین بولنے کی تو فیق بخشی”،
{مسند احمد 6 ص135،السنن الکبری للبیھقی 2 ص56}
زیر بحث حدیث اور اس حدیث کو ملانے سے پتہ چلتا ہے خصوصی طور پر چار کام سلام کرنا ، یوم جمعہ کو اہمیت دینا ، قبلہ ابرہیمی کا اہتمام کرنا اور امام کے پیچھے بآواز بلند آمین کہنا یہ وہ کام ہیں جو یہود پر بھی مشروع تھے لیکن وہ بطور عناد اور اپنے رسولوں کی مخالفت میں ان کاموں کو کلیۃ ترک کردئے ،اور اب جب مسلمانوں کوان پر عمل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو انھیں اس پر حسد ہوتا ہےکیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ مسلمان ان امورکی فضیلت سے دوچار ہوں ، یہ حدیث دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ امام کے پیچھے بآواز بلند آمین کہنے کی مشروعیت اور فضیلت پر واضح دلیل ہے ، کیونکہ اس حدیث میں مذکورہ کام اسلام کے ان ظاہری شعائر میں داخل ہیں جن پر عمل کرتے دیکھکر اللہ کے دشمنوں کو مسلمانوں سے حسد ہوتا ہے اب اگر امام کے پیچھے آمین بولنا بآواز بلند نہ ہو بلکہ آہستہ ہو تو اسے سننے اور یہود کے اس سے چڑھنے اور حسد کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، یہیں سے یہ حدیث ہمارے ان بھائیوں کو بھی متنبہ کرتی ہے جو مسلکی تعصب کی بنا پر آواز سے آمین بولنے والوں سے چڑھتے اور ناراض ہوتے ہیں ،بلکہ ان میں سے بعض منبر پر بیٹھ کر صراحت کے ساتھ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ” زور سے آمین بولکر لوگ ہماری نماز خراب نہ کریں ”،ہمارے یہ بھائی ذراسوچیں کہ ایسا ذہن رکھنے والے لوگ دانستہ یا نا دانستہ معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر معترض اور یہود کی سنت پر عمل کررہے ہیں ،
فائدے :
1 : زورسے آمین بولنا ، السلام علیکم کہنا ، اور یوم جمعہ کا اہتمام انبیاء علیہم السلا م کی سنت میں داخل ہے ،
2 : السلام علیکم کہکر اپنے بھائی سے سلام کرنا اور امام کے پیچھے آواز سے آمین بولنا ایسی سنت ہے جس سے اللہ کے دشمنوں کو چڑھ ہے ،
3 : یہود ایسی قوم ہے کہ حسد کرنا انکی خاص صفت ہے ،
4 : حسد کرنا اللہ تعالی کی نافرمانی اور اسکی مقرر قردہ تقدیر پر اعتراض ہے ،
ختم شدہ